وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پیر کو کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل 2024 کچھ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکا، اس حوالے سے علمائے کرام کی تجاویز نوٹ کر لی گئی ہیں، جن پر مشاورت کے بعد معاملے کا حتمی حل نکالیں گے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم میں منظور ہونے والے مدارس رجسٹریشن بل پر ایوان صدر کے اعتراضات کے بعد اس بل کی منظوری تعطل کا شکار ہے۔ حکومت نے اس بل پر اعتراض کیے ہیں۔
حکومت نے آج اسلام آباد میں مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کے حوالے سے علما و مشائخ کا اجلاس منعقد کیا، جس سے خطاب میں عطا تارڑ نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لا کر ان سے جڑی منفی چیزوں کو ختم کرنے کے لیے وسیع مشاورت سے نظام وضع کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مدارس بل کچھ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکا، علمائے کرام کی تجاویز نوٹ کر لی ہیں، جن میں سے بہت سی تجاویز پر ہمارا اتفاق ہے اور باقی پر مشاورت کر کے معاملے کا حتمی حل نکالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ان کی بھی تجاویز سنیں گے، اس مسئلے کا ایسا حل چاہتے ہیں جو سب کو قابل قبول ہو۔
انہوں نے کہا کہ مدارس میں زیر تعلیم اور فارغ التحصیل طلبہ کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔
اجلاس سے خطاب میں پاکستان علما کونسل کے چیئرمین طاہر اشرفی نے کہا کہ مدارس کے متعلق قانون سازی سے پہلے تمام مدارس کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا تھا کہ اگر اس ایکٹ کو آٹھ دسمبر تک قانون کی شکل نہ دی گئی تو وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان کی ڈٰیڈلائن کے حوالے سے مولانا اشرفی نے کہا کہ اگر حکومت کو یہ خطرہ ہے کہ دوسری جانب سے 10 ہزار بندہ اسلام آباد آ جائے گا تو یہاں بیٹھے مدارس کا 30 ہزار بندہ بھی اسلام آباد آ سکتا ہے۔
’لیکن ہم نہیں چاہتے کہ اسلام آباد قافلے چلیں۔ مدارس وزارت تعلیم سے منسلک رہنا چاہتے ہیں اور یہی متفقہ فیصلہ ہے۔‘
وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اگر یہ تعلیم کا معاملہ ہے تو اسے وزارت تعلیم کے ساتھ ہونا چاہیے اور اگر یہ تجارت کا معاملہ ہے تو اسے وزارت تجارت کے ماتحت ہونا چاہیے۔
’حکومت معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے‘
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آج خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج اجلاس بلا کر علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے، اس وقت ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں۔
’ہم ان علما کو بھی اپنی صف کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں، دینی مدارس کے حقوق کی جنگ تمام مدارس اور علما کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم ریاست سے تصادم نہیں بلکہ رجسٹریشن چاہتے ہیں، مدارس کے حوالے سے 2004 میں بھی قانون سازی ہوئی تھی، 2019 میں ایک نئے نظام کے لیے محض ایک معاہدہ کیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ کیا ہے؟
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے تحت ہونی چاہیے۔
مدارس رجسٹریشن ایکٹ 1860 اُس وقت نافذ العمل تھا جب مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کوئی اور قانون نہیں تھا۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل سیکورٹی پالیسی بنی جس کے تحت نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔
اس پلان کا ایک اہم پہلو مدارس کی اصلاحات اور اِن کو قومی دھارے میں لانا تھا۔
اس معاملے پر سٹیک ہولڈز کے مابین مشاورت کے بعد ایک معاہدہ طے پایا کہ مدارس کو محکمہ تعلیم کے اندر لایا جائے اور مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی سکھائے جائیں۔
معاہدے کے مطابق مدارس کوئی ایسا مواد نہیں پڑھائیں گے جو شدت پسندی کو ہوا دے۔ تمام مدارس کے بینک اکاونٹس کی نگرانی ہو گی اور ہر مدرسہ اپنے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل دے گا۔
اسی طرح ہر مدرسہ خود کو وزارت تعلیم کے ماتحت ڈائریکٹریٹ جنرل مذہبی امور کے پاس رجسٹرڈ کروائے گا۔
یہ معاہدہ 29 اگست، 2019 میں طے پایا، جس پر مولانا فضل الرحمان اور وفاق المدارس (پانچ جو پہلے سے موجود تھے) کے علما نے دستخط کیے تھے۔
اس حوالے سے جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ معاملہ پیچیدہ نہیں، یہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ ہے اس لیے اس کو وزارت صنعت کے ماتحت ہونا چاہیے۔ 2019 سے پہلے بھی ایسے ہی تھا۔
انہوں نے کہا کہ سوسائٹی ایکٹ بل 2024 کی دستاویز میں لکھا ہے کہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے سیکشن 21 میں ترمیم کے تحت دینی مدرسہ جو پہلے سے قائم ہے وہ چھ ماہ کے اندر اندر سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2024 کے تحت لازماً رجسٹر کرائے گا۔
’اسی طرح جو مدرسہ سوسائٹی ایکٹ کے بعد بنے گا وہ ایک سال کے عرصے میں رجسٹریشن کرائے گا۔ اور یہ بھی کہ اگر دینی مدرسے کے بہت سے ضلعی کیمپس ہوں گے تو رجسٹریشن صرف مرکزی مدرسے کی ہو گی۔ ہر دینی مدرسہ اپنی سالانہ تعلیمی رپورٹ جمع کرانے کا پابند ہو گا۔‘
جنرل سیکریٹری جے یو آئی صوبہ سندھ علامہ راشد محمود سومرو نے کہا کہ مدارس اور مساجد کی رجسٹریشن بند ہے اور کسی نئی مسجد کی تعمیر کی رجسٹریشن نہیں مل رہی۔
انہوں نے بتایا کہ مدارس کے نئے بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھل رہے اور مدارس کے طلبہ کی ڈگریاں التوا کا شکار ہے، اسی طرح بیرون ممالک سے پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو ویزے نہیں مل رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ یہ بل مدارس کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش ہے، جس کے تحت مدارس باضابطہ طور پر حکومت پاکستان کے ادارے کے ساتھ منسلک ہوں گے۔
’حکومت نے جب اپنی (26 ویں آئینی) ترامیم پاس کرانی تھیں تب تک ان کو اس بل پر اعتراض نہیں تھا، لیکن اب صدر نے اعتراض کر دیا ہے۔
’ہمارا ماننا یہ ہے کہ عالمی سطح پر مدارس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مدارس مدارس نہ رہیں بلکہ یونیورسٹی بن جائیں۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بننے کے بعد جس قانون کے ساتھ مدارس منسلک تھے وہی قانون رکھا جائے۔
بل پر ایوان صدر سے اعتراضات؟
دستیاب معلومات کے مطابق بل کو یہ اعتراض لگا کر واپس کیا گیا کہ مدارس کے وزارت تعلیم سے وزارت صنعت میں جانے سے آڈٹ کے مسائل پیدا ہوں گے۔
علامہ راشد محمود سومرو کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ اگر مدارس وزارت تعلیم کے ماتحت رہیں گے تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کو اعتراض نہیں ہو گا اور اگر وزارت صنعت کے ماتحت ہوں گے تو فیٹف کو اعتراض ہو گا۔
’مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک کرنے کی منظوری معاہدے کے تحت ہوئی تھی‘
ڈی جی مذہبی تعلیم میجر جنرل ریٹائرڈ غلام قمر نے بتایا کہ تمام مدارس وزارت تعلیم سے منسلک کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ہوئی تھی اور یہ معاہدہ حکومت اور تمام علما کے درمیان ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے مطابق ڈائریکٹوریٹ مذہبی ایجوکیشن سے تمام مدارس رجسٹرڈ ہوئے۔ ’مدارس کے بینک اکاؤنٹ کھلوانے کا بھی معاہدہ ہوا تاکہ مدارس کے مالی معاونت کی فیٹف کے تحت شفیافیت بھی رکھی جائے۔ وزرات تعلیم کے زیر اہتمام ڈائریکٹوریٹ ریلجیس ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا۔ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ایک فارم بنایا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہر مدرسہ اپنی تفصیلات ریجنل ڈائریکٹر کو فراہم کرتا ہے، اس عمل میں کوئی پیسے نہیں لگتے اور دو ہفتے مدارس کی رجسٹریشن میں وقت لگتا ہے۔‘
اس سے قبل مدارس کی رجسٹریشن و اصلاحات سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ ’ڈائریکٹوریٹ مذہبی تعلیم کے اندر 16 ریجنل دفاتر ہیں۔ رجسٹرڈ مدارس کو ہم اساتذہ دیتے ہیں جس کی تنخواہیں وزارت تعلیم دیتی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی رجسٹریشن ضروری
رکن اسمبلی خرم نواز گنڈاپور نے مدارس سے متعلق اس اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی رجسٹریشن ضرورت تھی۔ ایف ای ٹی ایف میں مدارس رجسٹر کرنے کے لیے ضروری تھا۔‘
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ ’مدارس کے نظام کو بیرونی ایجنڈے سے خطرہ نہیں، مدارس سے دہشت گردی کا لیبل ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘