مدارس رجسٹریشن: وزیر اعظم کی فضل الرحمٰن کو معاملات حل کرنے کی یقین دہانی

مولانا فضل الرحمٰن نے زور دیا کہ ’ایک یا دو روز میں مطالبہ تسلیم ہونے کی خوشخبری سنائی‘ جائے۔

20 دسمبر 2024 کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن وزیر اعظم شہباز شریف سے مصافحہ کرتے ہوئے (وزیر اعظم ہاؤس)

وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کو دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق ’معاملات کو جلد حل کرنے‘ کی یقین دہانی کروائی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے زور دیا کہ ’ایک یا دو روز میں مطالبہ تسلیم ہونے کی خوشخبری سنائی‘ جائے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کے بجائے سال 1860 کے سوسائیٹیز ایکٹ کے ماتحت لانے سے متعلق مطالبہ کیا تھا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد ایوانِ صدر پہنچا تو صدر آصف زرداری نے اس پر اعتراض لگانے کے بعد اسے واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔

وزیر اعظم ہاؤس، جہاں اس سے قبل سیاسی جماعتوں کی بیٹھک ہوئی،  کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں اس معاملے سے متعلق ’مثبت پیش رفت‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) اور حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی شریک ہوئی۔

بل پارلیمان کو واپس بھیجے جانے کے بعد ایک تنازع کھڑا ہو گیا جس کے بعد جے یو آئی کی جانب سے مختلف بیانات سامنے آنے لگے۔

ان میں ’فیصلہ ایوان میں نہیں میدان میں ہو گا‘ اور ’منظوری کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے‘ جیسے بیانات تھے۔

تاہم آج وزیر اعظم کی یقین دہانی کے بعد فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے ملاقات میں اپنا موقف دہرایا کہ صدر نے اس پر اعتراض کرنا ہے تو ایک اعتراض  ہو چکا، جس کا آئین و قانون کے مطابق سپیکر نے اصلاح کر کے جواب بھی دے دیا تھا۔

’اس جواب پر صدر نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور نہ اپنے اعتراض پر کوئی اصرار کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے صدر سے متعلق مزید کہا کہ اس کے بعد بھیجے گئے دوسرے اعتراض کی آئینی حیثیت نہیں بنتی، اسے بھی وقت گزرنے کے بعد بھیجا گیا۔ 

فضل الرحمٰن نے کہا انہیں ’انتہائی مثبت جواب دیا گیا، وزیراعظم نے وزارت قانون کو فوری ہدایات جاری کیں کہ وہ قانون و آئین کے مطابق اس پر فوراً عملی اقدام کریں۔

’امید ہے وہ ہمارے مطالبے کے مطابق اقدامات سامنے لائیں گے۔ اس ساری صورت حال سے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کو بھی آگاہ کروں گا، ایک یا دو دن کے اندر اس حوالے سے خوش خبری سنیں گے  کہ ہمارا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔‘

اس سے قبل وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے دینی مدارس رجسٹریشن بل پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مسودے ’میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ قانون اسلام آباد کی حدود تک ہے، جس کے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی۔ کیونکہ مسودے پر پیغام لگ کر واپس آیا جو ایک تکنیکی چیز ہے اور قانون کے مطابق حل ہو گی۔‘

اس سوال کہ ’بل تاخیر کا شکار کیوں ہے؟‘ پر اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ’میری رائے ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت معاملہ جب بھی ریفر ہوتا ہے تو سپیکر قومی اسمبلی اسے نہیں دیکھ سکتے بلکہ معاملہ مشترکہ اجلاس میں ہی آئے گا، جہاں اس کا طریقہ کار طے ہو جائے گا۔‘

دینی مدارس رجسٹریشن بل میں کیا ہے؟

رواں سال اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار تھی جس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت سے رابطہ کیا گیا۔

انہوں نے آئینی ترمیمی بل میں سود کے نظام کے خاتمے اور دینی مدارس کی محکمہ تعلیم کے بجائے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا بل منظور کروانے سمیت دیگر تجاویز شامل کرنے سے متعلق مطالبہ منظور کروایا۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں حکومت اور علما کے درمیان طے شدہ ’مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے‘ والے معاہدے کی جے یو آئی نے مخالفت کی تھی۔ تاہم یہ جماعت دو ماہ قبل سوسائٹی ایکٹ ترمیمی بل منظور کروانے میں کامیاب رہی۔

دینی مدارس رجسٹریشن بل میں سال 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی دینی مدرسہ کسی بھی نام سے پکارا جائے، اس کی رجسٹریشن لازمی ہو گی اور رجسٹریشن کے بغیر مدرسے کو بند کر دیا جائے گا۔

بل کے مسودے کے مطابق اس ترمیمی ایکٹ 2024 کے نفاذ سے قبل قائم کیے جانے والے مدارس جو رجسٹرڈ نہ ہوں، انہیں چھ ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کروانا ہو گی۔ جبکہ بل کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے ایک سال کا وقت مہیا کیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ مدارس کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کروانا ہو گی اور آڈیٹر سے اپنی مالی ضابطگیوں/حساب کا آڈٹ بھی پابندی سے کروانا ہو گا۔

اس بل میں کسی دینی مدرسے کو ایسا نصاب پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو ’مذہبی منافرت، عسکریت پسندی یا فرقہ واریت کو فروغ دے‘ رہا ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان