سول نافرمانی: قانون کیا کہتا ہے؟

تحریک انصاف کی سول نافرمانی کی تحریک کا ہدف کیا ہے؟ حکومت یا ریاست؟ ہدف اگر ریاست ہو گی تو فطری سی بات ہے کہ ردعمل بھی ریاست کی طرف سے آئے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت 31 مارچ 2024 کو پشاور میں ایک احتجاجی ریلی میں شریک تھے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی دھمکی دے رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سول نافرمانی کی یہ تحریک کیا واقعی ’سول‘ ہو گی یا یہ ایک ایسی ’فوجداری‘ واردات میں ڈھل جائے گی جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اچھی خاصی قابل دست اندازی پولیس بھی ہو گی؟

تحریک انصاف کی سول نافرمانی کی تحریک کا ہدف کیا ہے؟ حکومت یا ریاست؟ ہدف اگر ریاست ہو گی تو فطری سی بات ہے کہ ردعمل بھی ریاست کی طرف سے آئے گا۔

مجوزہ تحریک کے جو خدوخال سامنے آ رہے ہیں، ان کے مطابق پہلے مرحلے میں اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر محدود کرنے کی ترغیب دی جائے گی ۔

یہ سوال تو اہم ہے ہی کہ کیا معاشی مسائل کا شکار ریاست اس اقدام کی متحمل ہو پائے گی۔ یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ اس کے جواب میں ریاست جب جواب آں غزل کہے گی تو  کیا تحریک انصاف اس کی متحمل ہو پائے گی؟

معیشت ریاستوں کی لائف لائن ہوتی ہے۔ جس ریاست کو معاشی بحران کا سامنا ہو، کیا وہ دہی کے ساتھ قلچہ کھاتے ہوئے آرام سے یہ منظر دیکھتی رہے گی کہ اسے ترسیلات زر سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے؟ کیا یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ریاست اپنی لائف لائن سے بے نیاز ہو جائے گی؟

ملک میں ہنڈی وغیرہ کے ذریعے رقم بھیجنا بھی جرم ہے کیونکہ اس سے ملک کا مالیاتی نظام متاثر ہوتا ہے۔ تو کیا سرے سے ملک میں رقوم ہی نہ بھیجنے کی ترغیب دینا فوجداری جرم نہیں ہو گا؟ کیا اس پر قانون حرکت میں نہیں آئے گا؟

یاد رہے کہ جرم صرف یہ نہیں کہ اپنے دست مبارک سے اس کا ارتکاب کیا جائے۔ کسی کو جرم پر اکسانا اور اس کی ترغیب دینا بھی اتنا ہی جرم ہے۔ قانون کی معاشی جورسپرڈنس تو واضح ہے، ضرروت پڑی تو صدارتی آرڈیننس سے ’فل ان دی بلینک‘ کا اہتمام بھی ہو جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریک انصاف یقیناً یہ کہے گی کہ اس کا ہدف ریاست نہیں بلکہ حکومت ہے۔

لیکن حکومت سے نفرت کی بنیاد پر اگر ریاست کے معاشی مفادات ہی داؤ پر لگا دیے جائیں تو یہ نرم سے نرم انداز میں بھی بڑی آسانی سے ’سیڈیشن‘ کا جرم قرار دیا جا سکتا ہے اور تعزیرات پاکستان کے تحت اس کی سزا عمر قید تک بھی ہو سکتی ہے۔

اگرچہ عملاً یہ ایک غیرفعال قسم کا نو آبادیاتی قانون ہے لیکن جب معاشی اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا تو اس قانون کو بھی نیند سے بیدار کیا جا سکتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے جاگ جایے، آپ کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

اور اگر اس سول نافرمانی کی بندوق صرف اوورسیز کے کندھوں پر رکھ کر نہیں چلائی جاتی بلکہ مقامی سطح پر کارکنان بھی اس میں شامل ہوتے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ معاملہ کتنا ’سول‘ اور کتنا ’فوجداری‘ ہو گا۔

کیونکہ سیاسی اشرافیہ کی انجمن امداد باہمی قیادت کو تو ڈی چوک کے حصار سے بھی نکلنے کا موقع فراہم کر دیتی ہے اور کارکن دھر لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہر سول نافرمان کو اپنی جمع تفریق خود کر لینی چاہیے۔

آپ گیس بجلی کے بل نہیں دیتے، میٹر کٹ سکتے ہیں۔ آپ نوکری پر نہیں جاتے، آپ کو گھر بھیج کے نئی بھرتی ہو سکتی ہے کیونکہ ملک میں بے روزگاری پہلے ہی بہت ہے۔

آپ کسی درجے میں قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تو یاد رہے کہ اسی درجے میں قانون آپ کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔ ریاست کے صرف شہری ہوتے ہیں۔

کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس سارے عمل میں وہ کہاں کھڑی ہو گی؟ کیا وہ اس سے لاتعلق رہے گی یا یہ بھی سول نافرمان ہو جائے گی؟ کیا وہ اپنے صوبے میں شہریوں سے کہے گی کہ وفاق کے بل ادا نہ کیے جائیں وغیرہ وغیرہ؟

خیبر پختونخوا کے جو لوگ روزگار کے لیے خلیجی ممالک میں مقیم ہیں اور جن کے گھروں کے چولہے ان کے بھیجے پیسوں سے چلتے ہیں ان کے لیے کیا حکم ہو گا؟ ترسیلات زر روکنے کے بعد کیا ان گھروں کے چولہے چلانے کی ذمہ داری سول نافرمان وزیر اعلیٰ کی ہو گی؟

سول نافرمان حکومت خود اپنے صوبے کے معاملات کیسے چلا پائے گی؟ سول نافرمان وزیر اعلیٰ کے ساتھ وفاق کے تعلق کی نوعییت کیا ہو گی؟ کیا صوبائی مشینری کو بھی نافرمانی پر مائل فرمایا جائے گا؟ نیز یہ کہ اس صورت میں وفاق کا ردعمل کیا ہو گا؟  

سیاست بند گلی سے رستہ نکالنے کا نام ہے۔ یہ اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کا نام نہیں ہے۔ مس ایڈ ونچرز نے پہلے ہی تحریک انصاف کو کچھ نہیں دیا، 2025 کا یہ پہلا مس ایڈونچر کہیں اس کی آخری مہم جوئی نہ بن جائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر