پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی تحریک کتنی کامیاب ہو سکتی ہے؟

سول نافرمانی کی تحریک عام طور پر حکومتی احکامات نہ ماننا اور کسی بھی حکومت کے خلاف شہریوں کی مالی بغاوت کو کہا جاتا ہے۔

تحریک انصاف کے کارکن 21 ستمبر 2024 کو لاہور میں منعقدہ ریلی میں شریک ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جیل میں قید بانی عمران خان کی جانب سے مطالبات کے نہ مانے جانے پر سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم یہ کتنی کامیاب ہو گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

سول نافرمانی کی تحریک عام طور پر حکومتی احکامات نہ ماننا اور کسی بھی حکومت کے خلاف شہریوں کی مالی بغاوت کو کہا جاتا ہے۔

جس میں بیرون ملک مقیم شہریوں کا اپنے ملک میں ترسیلات زر نہ بھیجنا، بجلی، گیس، پانی سمیت حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سروسز کے بل ادا نہ کرنا یا محصولات کی ادائیگی روکنا، مالی بائیکاٹ کرنا اور قوانین کو تسلیم نہ کرنا شامل ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ان کے سوشل میڈیا اکاونٹ کے ذریعے انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی، نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام نہ ہونے پر 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے بھی میڈیا سے گفتگو میں اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی کال پر عمل درآمد پر عمل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پہلے نو مئی کو احتجاج کے دوران ہمارے خلاف سازش کر کے لیڈر سمیت رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ پھر عام انتخابات میں اکثریت عوام کا فیصلہ مسترد کر کے غیر قانونی حکومت مسلط کر دی گئی۔

’انصاف کا راستہ روکنے کے لیے 26ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو غیر موثر بنا دیا گیا۔ جب ہم نے احتجاج کا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے 26 نومبر کو احتجاج کیا تو گولیاں برسائی گئیں۔ ہمارے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے۔ اب سول نافرمانی جیسی تحریک کے علاوہ کیا راستہ ہے ہمارے پاس؟‘

شعیب شاہین نے کہا کہ ’جو سمجھتے ہیں ہماری تحریک کامیاب نہیں ہو گی وہ یاد کریں کہ حکومت کہتی تھی اٹک پل کراس کر کے دکھائیں جبر وتشدد کے باوجود نہ صرف اٹک پل کراس ہوا بلکہ ڈی چوک بھی کراس ہوا۔ لہذا مطالبات نہ مانے گئے تو خان صاحب کی مشاورت سے اگر سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی تو وہ بھی ضرور کامیاب ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ن لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی نے جو دو مطالبات رکھے ہیں وہ حکومت تسلیم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ گرفتار قیدیوں کے فیصلے عدالتوں میں ہیں۔ جو 26 نومبر کو احتجاج کے دوران انشار پھیلایا گیا اس کی بھی انکوائری تو چل رہی ہے وہاں پیش ہو کر خود کو بے گناہ ثابت کر دیں۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی بے اختیار ہے اور دھمکی کے ساتھ وہ بھی مشروط سیاسی مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں؟ لہذا جس طرح عوام نے ان کے احتجاج کی فائنل کال مسترد کر دی اسی طرح سول نافرمانی کی تحریک بھی کامیاب نہیں ہو گی۔‘

ماہر معیشت الماس حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ ترسیلات زر یا یوٹیلٹی بلوں کا معیشت پر دارومدار ہوتا ہے مگر بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی فیملی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ترسیلات بھیجتے ہیں۔ کیا کسی لیڈر کے کہنے پر وہ اپنے بیوی بچوں یا والدین کو بھوکا مارنے کو تیار ہوں گے؟ اس کے علاوہ بجلی، گیس سمیت یوٹیلٹی بل ادا نہ کرنے والوں کے کنکشن منقطع ہونے سے لوگ کیسے گزارہ کریں گے؟

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکومتی احکامات یا قانون نہ ماننے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہوتی ہے تو لوگ کس طرح اس کا مقابلہ کریں گے؟ اس لیے اس طرح کی کالیں صرف سیاسی نعرے دعوے تو ہوسکتی ہیں۔ ان سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں جب ادارے مضبوط ہیں تو سول نافرمانی جیسی تحریکیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ جہاں تک بات ہے پی ٹی آئی کی جانب سے ممکنہ تحریک چلانے کی تو وہ تو 2014 میں بھی چلا کر دیکھ چکے ہیں۔

’اس وقت طاقتور حلقے بھی پی ٹی آئی کی پشت پر تھے تب بھی یہ تحریک کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ عمران خان نے پہلے کنٹینر پر کھڑے ہو کر خود بجلی بل جلایا اور کچھ دن بعد خود ہی یہ بیان دے کر کہ ٹھنڈے پانی میں نہایا نہیں جاسکتا اپنی رہائش گاہ بنی گالہ اور زمان پارک کے بجلی اور گیس کنکشن منقطع ہونے پر فوری ادائیگی کر کے بحال کرا لیے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان ترسیلات زر سے یا بلوں کی ادائیگی سے لوگوں کو کیسے روکیں گے؟ خیبر پختونخوا میں جہاں ان کی جماعت برسر اقتدار ہے وہاں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں فیملیاں بیرون ملک مقیم اپنے پیاروں کے بھیجے جانے والے ترسیلات زر سے چلتی ہیں۔ پھر حکومتی ادارے ہیں وہ کیسے بل ادا نہیں کریں گے؟ وہاں لوگوں کو کیا کہا جائے گا کہ صرف وفاقی حکومت کا حکم نہ مانیں صوبائی حکومت کا حکم مانتے رہیں؟‘

سول نافرمانی کی تحریکوں کی تاریخ

سلمان غنی کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی ویسے تو احتجاج کا پرامن طریقہ ہوتا ہے۔ جس کا مقصود حکومتوں کو دباؤ میں لا کر مطالبات منوانا ہوتا ہے۔ لیکن برصغیر کی تاریخ میں ایسی تحریکوں کی کامیابی کی تاریخ زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔ 

’اکا دکا تو کسی حد تک کامیاب رہیں مگر ہاکستانی تاریخ میں یہ کھبی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں۔ برصغیر کی تاریخ میں سول نافرمانی کی سب سے مشہور تحریک کا آغاز 1930 میں گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پھرمشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم کروانے کے لیے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی کال دی۔ اس تحریک کے دوران ڈھاکہ سمیت مشرقی پاکستان میں پہیہ جام ہو گیا۔ اس کے بعد فوجی آپریشن ’سرچ لائٹ‘ کا آغاز کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’1977 میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا، 1977 کے انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلیوں کی 200 نشستوں میں 100 پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔

’صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی میں 36 نشستیں حاصل کیں اور نتائج کو مسترد کر دیا۔ پھرسول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔‘ 
پاکستان قومی اتحاد نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر دھاندلی کا الزام لگایا اور پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد نے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ بھی کیا۔
اسی طرح 2014 میں بھی عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور کہا کہ جب تک نواز شریف مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک بجلی، گیس کے بل اور دیگر سرکاری واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن یہ تحریک مکمل ناکام ہو گئی کیونکہ اس سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست