پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کیے دو مطالبات رکھتے ہوئے کہا کہ اگر یہ مطالبات نہیں مانے گئے تو سول نافرمانی تحریک کا آغاز کیا جائے گا، تاہم ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی معیشت پر یہ تحریک کتنی اثر انداز ہو سکے گی۔
سول نافرمانی تحریک میں پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی نے بتایا کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپیل کریں گے کہ وہ ترسیلات زر کا بائیکاٹ کریں یا آسان الفاظ میں بیرون ملک سے پاکستان رقم بھیجنے کا بائیکاٹ کریں۔
اس حوالے سے گذشتہ روز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ترسیلات زر سے بائیکاٹ سول نافرمانی تحریک کا پہلا مرحلہ ہو گا۔
انہوں نے بتایا تھا، ‘اس میں ایسا نہیں ہے کہ بالکل پیسے نہیں بھیجیں گے بلکہ ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ ترسیلات زد میں کم از کم 10 فیصد کمی لائیں کیونکہ ظاہری بات ہے کہ بیرون ملک پیسے خاندان والوں کو ضرورت کے لیے بھیجوائے جاتے ہیں۔’
شیخ وقاص اکرم سے جب پوچھا گیا کہ اگر لوگ پیسے نہیں بھیجیں گے تو گھر کا خرچہ کیسے چلائیں گے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم کچھ فیصد کمی کا بتائیں گے اور 10 فیصد کمی سے بھی حکومت پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
ترسیلات زر کا پاکستانی معیشت میں کیا کردار ہے؟
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے مطابق ترسیلات زر یا ریمیٹنس وہ پیسے ہوتے ہیں جو پاکستانی شہری کسی بیرون ملک میں رہ کر اس ملک کی کرنسی میں کما کر پاکستان میں موجود اپنے خاندان کو بھیجتے ہیں۔
جہانگیر خان پشاور میں مسلم کمرشل بینک کے ریجنل سربراہ ہیں اور انہوں نے بتایا، ‘ترقیاتی ممالک میں ترسیلات زر کو جی ڈی پی کا حصہ بنایا جاتا ہے اور یہ کسی بھی ترقیاتی ملک کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے۔’
ایف بی آر کے مطابق 50 لاکھ روپے تک سالانہ ترسیلات زر پر کسی قسم کا انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا ہے۔
ترسیلات زر اور اس پر ٹیکس چھوٹ کی کہانی بہت دلچسپت ہے اور اس کی شروعات تقسیم ہند سے ہوئی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق تقسیم ہند کے دوران جب لوگ پاکستان منتقل ہو گئے تو اس وقت ذرائع آمدنی زیادہ تر انڈیا میں رہ گئی تھی اور وہی سے لوگ کما کر پاکستان میں خرچ کرتے تھے۔
اس دوران حکومت نے فیصلہ کرتے ہوئے اس آمدنی پر ٹیکس چھوٹ دی، تاہم 1956 میں قوانین میں ترمیم کر کے یہ بتایا گیا کہ صرف ان ترسیلات زر پر ٹیکس چھوٹ ہو گی جو باقاعدہ بینک کے ذریعے انڈیا سے پاکستان منتقل ہوں۔
اس کے بعد مختلف اوقات میں ترسیلات زر کے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں اور اب جو قانون ہے، اسی کے مطابق وہ پاکستانی جو قلیل مدت کے لیے کسی بیرون ملک میں پیسے کما کر پاکستان بھیجتے ہیں تو اس کو ترسیلات زر کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ پیسے غیر ملکی کرنسی میں ہونے چاہییں اور کسی ریگولر بینک کے ذریعے بھیجے گئے ہوں کیونکہ پاکستان میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے غیر قانونی طریقے جیسے حوالہ/ہنڈی کے ذریعے بھی پیسے بھیجے جاتے ہیں۔
حوالہ یا ہنڈی وہ طریقہ ہے جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانی وہاں موجود کسی شخص کو فارن کرنسی دیتے ہیں اور پاکستان میں اسی شخص کے ساتھ منسلک دوسرے شخص سے پاکستانی کرنسی میں پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔
ترسیلات زر کا پاکستانی معیشت میں کردار
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان جیسے مشترکہ خاندانی نظام والے ملک میں ترسیلات زر کا کسی بھی خاندان کی معاشی سپورٹ میں اہم کردار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بینک کے مطابق، ‘ترسیلات زر غربت کے خاتمے، گھریلو اخراجات برداشت کرنے اور سماجی تحفظ کا اہم جز ہے۔ ‘
ایشیائی ترقیاتی بینک کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ترسیلات زر میں اضافہ 2000 سے دیکھا گیا ہے اور اب پاکستان کی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) کا تقریباً 10 فیصد حصہ ترسیلات زر سے آتا ہے۔
جی ڈی پی کسی بھی ملک کے اندر تمام خریدو وفروخت، اشیا کے بننے اور فروخت ہونے ہر لگنے والے پیسے، اور لوگوں کی جانب سے خریدو فروخت پر خرچ ہونے والے پیسے ہوتے ہیں جس کو مجموعی طور پر جی ڈی پی کہا جاتا ہے۔
سادہ الفاظ میں اگر ہم بیان کریں تو اگر پاکستان کے اندر سالانہ ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں تو اس میں ایک ہزار روپے ترسیلات زر سے آتے ہیں۔
ترسیلات زر کی وجہ سے ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان 2007 اور 2008 کے بحران سے نکل گیا تھا اور اسی طرح کرونا وبا کے دوران بھی ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران سے نکل گیا تھا۔
ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس میں معاشیات کے پروفیسر ہیں اور ملکی معیشت پر کئی تحقیقاتی مقالے لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ترسیلات زر پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے بغیر ہم ایک سال بھی نہیں رہ سکتے۔ ‘
ڈاکٹر ناصر اقبال نے بتایا، ’ہماری برآمدات سے ملنے والے پیسے بھی ترسیلات زر سے کم ہیں۔ دوسری بات کہ اگر کسی بھی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی آتی ہے تو ہمارے پاس درآمدات کے لیے بھی پیسے نہیں ہوں گے اور نہ ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ درآمدات کے لیے مزید قرضے لیں۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ ترسیلات زر میں کسی قسم کی بھی کمی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے اور حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کن ممالک سے کتنے پیسے آتے ہیں؟
سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال نومبر کے مہینے میں ترسیلات زر تقریباً تین ارب ڈالر(تقریباً 805 ارب روپے) تک پہنچ گئی تھیں جس میں سب سے زیادہ پیسے سعودی عرب سے آئے ہیں جو 730 ملین ڈالر(تقریباً 203 ارب روپے) تھے۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ پیسے متحدہ عرب امارات سے آئے ہیں جو تقریباً 619 ملین ڈالر (172 ارب روپے) ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر زیادہ ترسیلات زر برطانیہ سے 430 ملین ڈالر ( تقریباً 119 ارب روپے) موصول ہوئے ہیں۔
مجموعی طور پر سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2023 اور 2024 میں ترسیلات زر تقریباً 30 ارب ڈالر تھے جس کے باعث پاکستان دنیا میں پانچ سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا تھا۔
پی ٹی آئی سول نافرمانی تحریک سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟
ہم اگر نومبر کے مہینے کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کریں تو نومبر میں تقریباً 805 ارب روپے بیرون ممالک سے بھیجے گئے ہیں۔
اب پی ٹی آئی کی اپیل پر اگر عمل کرتے ہوئے صرف 10 فیصد ترسیلات زر میں کمی آجائے تو پاکستان کو ماہانہ تقریباً 80 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔
تاہم یہ مجموعی طور پر تمام سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی بات کی گئی ہے جب تمام بیرون ملک پاکستانی پی ٹی آئی کی اپیل پر عمل کریں لیکن ضروری نہیں ہے کہ بیرون ملک مقیم تمام پاکستانیوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو۔
لیکن اب اگر ہم بیرون ملک مقیم صرف 10 فیصد پاکستانیوں کی بات کریں تو 10 فیصد پاکستانی بھی اگر ترسیلات زر میں 10 فیصد کمی لائیں تو پاکستان کو ماہانہ آٹھ ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔