کئی مرتبہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے شواہد دیے جا چکے: پاکستان

ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا پاکستان نے افغانستان میں مقیم افراد کے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد شیئر کیے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ 29 اگست 2024 کو اسلام آباد میں نیوز بریفنگ دے رہی ہیں (دفتر خارجہ پاکستان)

پاکستان نے افغانستان کے اس بیان کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ پاکستان نے کئی موقعوں پر ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں افغان حکام کے ساتھ دو طرفہ بات چیت بھی شامل ہے۔

ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا پاکستان نے افغانستان میں مقیم افراد کے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد شیئر کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر ’دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کی تصدیق اقوام متحدہ سمیت متعدد آزاد رپورٹس سے ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان توقع کرتا ہے کہ افغان حکام ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کریں گے اور ان کی سرگرمیوں کو روکیں گے جو پاکستان کی سلامتی‘ کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تاحال ٹی ٹی پی کی موجودگی سے متعلق ان کے ملک کو کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔

اس سوال کہ ’پاکستان نے افغانستان سے کن تنظیموں اور افراد کے نام بتانے کی درخواست کی تھی؟‘ پر ترجمان نے پہلے تو جواب دیا کہ وہ ’معاملے کی حساسیت کے پیش نظر پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس تبادلے کے حوالے سے تفصیلات بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس ضمن میں وزارت داخلہ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔‘

اس جواب پر جب ضمنی سوال کیا گیا تو ممتاز زہرہ نے کہا کہ ’ہم نے مواصلات کے متعدد چینلز، جن میں افغانستان میں پاکستانی سفارت خانہ بھی شامل ہے، کے ذرئعے ٹھوس شواہد شیئر کیے ہیں۔ تاہم مواصلات کے کئی دوسرے چینلز بھی ہیں جہاں ہم نے افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروپوں کے ملوث ہونے سے متعلق خدشات، ٹھوس شواہد اور دہشت گردی کی کاروائیوں کے حوالے سے آگاہ کیا ہے۔‘

ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم افغان حکومت ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کارروائی کرے۔

دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر ایران کی جانب سے عالمی ثالثی عدالت میں جانے سے متعلق خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی قانونی ٹیم اور وزارت پٹرولیم اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

دفتر خارجہ نے خان یونس میں اسرائیل کی جانب سے تاریخی مسجد پر بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک میں انڈیا سمیت تمام دیگر اراکین ممالک کے سربراہان کو دعوت نامے بھیج دیے ہیں جن میں سے چند دعوت ناموں کی شرکت کی تصدیق موصول ہوئی ہے۔ وقت آنے پر آگاہ کیا جائے گا کہ کن ممالک نے تصدیق کی ہے۔

ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان نے کوئی ثبوت نہیں دیے: افغان وزارت دفاع

طالبان حکومت کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ابھی تک کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں موجود ہیں۔

طالبان حکومت کے چیف آف سٹاف محمد فصیح الدین فطرت نے بدھ کو کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان کو اپنی سکیورٹی کمزوریوں کا الزام افغانستان پر نہیں لگانا چاہیے۔

یہ بیان پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے ملک میں سکیورٹی کے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دن بعد دیا گیا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان افغانستان کی سرزمین سے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع کے چیف آف سٹاف فصیح الدین فطرت نے جو اپنی وزارت کی گذشتہ ایک سالہ کامیابیوں کے بارے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، تاکید کی کہ پاکستان نے افغانستان میں پاکستانی طالبان گروپ کی موجودگی کے بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔

کابل کے میڈیا سینٹر میں چیف آف آرمی سٹاف، وزارت دفاع کی سٹریٹجک پالیسی کے سربراہ مولوی محمد قاسم فرید اور وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے وزارت کی گذشتہ سال کی رپورٹ اور آئندہ سال کے منصوبوں کی تفصیلات پیش کیں۔

انہوں نے افغانستان میں اس گروپ کی موجودگی کی سختی سے تردید کی کہ ان کے علاقے میں ان کے مراکز ہیں اور وہ وہاں سے پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں مراکز ہیں۔ امارت اسلامیہ نے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور وہ اس وعدے پر قائم ہے۔ جو افغانستان میں ہے، اسے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

لیکن اس بیان سے ایک روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے کام کر رہی ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ سول اور فوجی حکام بارہا ایسے بیانات دے چکے ہیں اور طالبان انہیں مسترد کر چکے ہیں۔

افغانستان کے مشرق اور جنوب مشرق میں پاکستان فضائیہ کے حملوں کی افواہوں کے بارے میں طالبان حکام نے بدھ کی پریس کانفرنس میں کچھ نہیں کہا تاہم اصرار کیا کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ افغانستان کی علاقائی سالمیت اور سرحدوں کا دفاع کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان حکومت کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں موجود ہیں۔

طالبان حکومت کے چیف آف سٹاف محمد فصیح الدین فطرت نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو اپنی سکیورٹی کمزوریوں کا الزام افغانستان پر نہیں لگانا چاہیے۔

یہ بیان پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے ملک میں سکیورٹی کے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دن بعد دیا گیا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان افغانستان کی سرزمین سے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع کے چیف آف سٹاف فصیح الدین فطرت نے جو اپنی وزارت کی گذشتہ ایک سالہ کامیابیوں کے بارے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، تاکید کی کہ پاکستان نے افغانستان میں پاکستانی طالبان گروپ کی موجودگی کے بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔

انہوں نے افغانستان میں اس گروپ کی موجودگی کی سختی سے تردید کی کہ ان کے علاقے میں ان کے مراکز ہیں اور وہ وہاں سے پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں مراکز ہیں۔ امارت اسلامیہ نے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور وہ اس وعدے پر قائم ہے۔ جو افغانستان میں ہے، اسے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

لیکن اس بیان سے ایک روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے کام کر رہی ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ سول اور فوجی حکام بارہا ایسے بیانات دے چکے ہیں اور طالبان انہیں مسترد کر چکے ہیں۔

افغانستان کے مشرق اور جنوب مشرق میں پاکستان فضائیہ کے حملوں کی افواہوں کے بارے میں طالبان حکام نے بدھ کی پریس کانفرنس میں کچھ نہیں کہا تاہم اصرار کیا کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ افغانستان کی علاقائی سالمیت اور سرحدوں کا دفاع کریں گے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ دنوں کابل جانے کا عندیہ دیا تھا لیکن کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی یہ دورہ نہیں ہوسکا ہے۔ امید تھی کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی۔  

پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران آرمی چیف  نے ملک کی سالمیت، آزادی، قومی تشخص اور اسلامی و قومی اقدار کے تحفظ میں فوج کی ذمہ داری اور مشن کو بیان کرتے ہوئے کہا: ’امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت دفاع ملک کی دفاعی اور سلامتی کو بنیاد سمجھتے ہوئے اس وقت افغانستان کی علاقائی سالمیت کو لاحق ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلسل سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدامات کر رہی ہے۔

’اس کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اور باہمی احترام کے حوالے سے بہتر انتظامات کے اصولوں پر کاربند ہے۔ ملک کی سٹریٹجک اور جغرافیائی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اسلامی فوج کا قیام اور اس کی ترقی امارت اسلامیہ کی قیادت کا وژن ہے۔‘

قاری فصیح الدین فطرت نے فوجی اہلکاروں کی تعلیم و تربیت کے لیے وزارت دفاع کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’گذشتہ سال وزارت دفاع کے یونٹس کے تعلیمی مراکز سے سینکڑوں اہلکار مذہبی، پیشہ ورانہ اور عسکری تعلیم سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔‘

بعد میں وزارت دفاع کی سٹریٹجک پالیسی کے سربراہ محمد قاسم فرید نے تمام شعبوں کی سرگرمیوں اور کامیابیوں پر تفصیلی بات کی۔

انہوں نے کہا: ’وزارت دفاع نے گذشتہ سال نئی تقرریوں کے سلسلے میں 100,000 تربیت یافتہ جوانوں کی تقرری کی، مالیاتی بجٹ میں شفافیت، فوجداری مقدمات کی 419 جلدوں کی تحقیقات، کیس سٹڈی، سہ فریقی سکیورٹی اور دفاعی اداروں کی چھ بنیادی دستاویزات کا جائزہ اور انھیں بھیجنا، بیرون ممالک سے 151 ادویات اور طبی سامان کے حصول، عمارتوں کی تعمیرات، شکایات کے 776 کیسز اور دیگر امور کی چھان بین کرکے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ دنوں کابل جانے کا عندیہ دیا تھا لیکن کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی یہ دورہ نہیں ہوسکا ہے۔ امید تھی کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا