فلمی ناکامیوں کا سال 2024

سال 2024 کو لالی وڈ کی ناکامیوں کے حوالے سے ایک اور مایوس کن سال قرار دیا جائے تو غلط نا ہو گا۔

2024 میں بننے والی تین پاکستانی فلمں کے پوسٹرز (آئی ایم ڈی بی)

سال 2024 کو لالی وڈ کی ناکامیوں کے حوالے سے ایک اور مایوس کن سال قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

پاکستان میں فلموں کے ریوائول کا راگ تو برسوں سے الاپا جا رہا ہے مگر ریوائول کے نام پر ناکام تجربات ہو رہے ہیں اور پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے زمانے میں ان پڑھ اور گنوار عیاشی کی نیت سے خواتین کو ہیروئن بنانے کا لالچ دے کر لچر فلمیں بنایا کرتے تھے اور اب پڑھے لکھے ٹی وی فنکار بڑے پردے پر دکھائی دینے کے شوق میں بے مقصد فلمیں بنا رہے ہیں۔

اس  دور میں یہ الزام لگتا تھا کہ لاہور میں لچر فلمی فنکاروں نے فلم بینوں کے ایک مخصوص طبقے کے لیے کام کیا اور سنجیدہ فلم بین یا فیملیز نے ان کی غیرمعیاری کارکردگی  کے باعث سنیما جانا چھوڑ دیا۔ مگر آج کے ویران سنیما گھروں، بغیر سکرپٹ اور بے جوڑ کہانیوں سے مرصع فلموں اور ڈائریکشن سے عاری شاہکاروں کو دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ پچھلا دور ہی بہتر تھا، جب کم از کم سال میں 100 کے لگ بھگ فلمیں بنا کرتی تھیں۔

سٹوڈیوز آباد تھے اور بہت ساری غیر معیاری فلموں کے درمیان معیاری فلمیں بھی سامنے آرہی تھیں۔ بڑے پردے کے تقاضوں سے لیس فلم مٹیریئل پروڈیوس ہو رہا تھا اور جلد یا بدیر بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ مگر احساسِ برتری کے نشے میں دھت ٹی وی کے فنکاروں نے راتوں رات انڈسٹری کو لاہور سے کراچی منتقل کیا اور بہتری لانے کے نام پر تباہی پھیر دی۔

2024 کی کسی فلم میں سعود، شان، معمر رانا، ریشم یا میرا جیسے 90 کی دہائی کے سپر سٹارز نہیں تھے پھر بھی یہ فلمیں سپر فلاپ ہوئیں۔ ان فلموں میں مہوش حیات، علی رحمان، عمران اشرف، فریال محمود اور یمنیٰ زیدی جیسے موجودہ دور کے جگمگاتے ٹی وی سٹارز کو بڑے زعم سے کاسٹ کیا گیا مگر یہ فلمیں ایسی فلاپ ہوئیں کہ پروڈیوسرز کسی کو منہ دکھانے کے قابل نا رہے۔
اس سال جو چند قابل ذکر پاکستانی فلمیں اردو زبان میں ریلیز ہوئیں ان میں وکھری، نایاب، ٹکسالی گیٹ، دغاباز دل، پوپے کی ویڈنگ، نابالغ افراد، بھیڑیا، ابھی، منجو ماریہ، لیچ، مستانی، کان نگر، ایجنٹ انیلہ، سنک، دلدل، ہم تم اور وہ، عمروعیار، دی گلاس ورکراورکٹّرکراچی شامل ہیں۔ ان میں سے کسی کو بائیوپک کسی کو ٹیلی فلم اور کسی کواینی میٹڈ کانٹینٹ کے ترازو میں تولا جائے تو یہ سینما سکوپ فلم کے معیارات پر پورا اترنے کے قابل بھی نہیں رہتیں۔

ان فلموں میں سے بمشکل اکّا دُکّا نے منافع کمایا یا اپنی لاگت پوری کی ورنہ زیادہ تر فلمیں تو ریلیز ہوتے ہی ڈبے میں واپس بند ہو گئیں۔ فلمیں شاید اتنی بری بھی نہ ہوں مگر سنیما گھروں کی قلیل تعداد نے ان فلموں کو ٹھکانے لگانے میں تابوت کی آخری کیل والا کردار ادا کیا۔

ہم اسی بات پر خوش ہوتے رہے کہ وکھری نے بین الاقوامی فلم فیسٹولز میں پذیرائی حاصل کر لی یا دغاباز دل میں مہوش حیات اور علی رحمان بڑے پردے کی زینت بن گئے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس خوش ہونے کو اور کوئی فلمی کارنامہ نہیں تھا۔

رہا سہا 2024 یا تو اس امید پر گذر گیا کہ  شاید لیجنڈز آف مولا جٹ کو انڈیا میں ریلیز ہونے کا اعزاز مل جائے۔ مگر یہ اعزاز بھی نہیں ملا اور ہماری یہ معصوم سی خواہش بھی پوری نا ہو سکی کہ دی گلاس ورکر کو آسکر میں نامزدگی مل جائے گی۔

ان تمام روایتی فلمی گلے شکوؤں کی موجودگی میں پاکستان کی سنیما انڈسٹری سے ان دنوں اچھی خبریں سننے کو کم ہی ملتی ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ دسمبر کا آخری سورج ڈوبتے دیکھ کر اس سال فلاپ ہونے والی مقامی فلموں کا نوحہ لکھا جائے یا آنے والے سال میں متوقع طور پر ریلیز ہونے والی پاکستانی  فلموں پر پیشگی اشک بہائے جائیں۔ ہم فلم بین سوا سو سے بھی کم سکرینز اپنی جھولی میں لیے گھوم رہے ہیں اور مقابلہ انڈیا کی اس فلمی صنعت سے کرتے ہیں جہاں کے فلمساز چار چارسو کروڑ کے سعرمائے سے پشپا ٹو جیسی فلمیں بناتے ہیں اور فلم کی ریلیز سے پہلے ہی تھیٹریکل اور نان تھیٹریکل رائیٹس کی مد میں 1000 کروڑ کا منافع کما چکے ہوتے ہیں۔

یہ بگ منی گیم وہاں کا فلمساز، ڈسٹری بیوشن، میوزک، ڈیجیٹل اورسیٹلائٹ حقوق کی بنیاد پر کھیل رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایسے حقوق کس چڑیا کا نام ہیں۔ ہمارے مصیبت زدہ پروڈیوسرکو پتہ بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان میں سوا سو سکرینز کی موجودگی میں فلم کی کامیابی دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوتی ہے۔

2024 میں یوں تو اردو، پنجابی، پشتو اور انگریزی فلموں سمیت نا صرف 16 انڈونیشین، کچھ کورین اور انڈین پنجاب کی فلموں کو ملا کر 30 کے لگ بھگ فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں سقوطِ ڈھاکہ کے 50 سال بعد پہلی مرتبہ دو بنگلہ فلمیں بھی پاکستانی سنیما گھروں کی زینت بنیں۔ انڈونیشیا کی ہارر فلموں نے اچھا بزنس بھی کیا مگر بنگلہ فلمیں جن ٹو اور طوفان اچھی ہونے کے باوجود کمزور مارکیٹنگ کے باعث فلاپ ہو گئیں۔ جو آٹھ پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں ان کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کراچی یا سندھ سرکٹ تو درکنار، پنجاب میں بھی صرف لاہور کی حد تک ریلیز ہو سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ فلمیں تو اتنی ہلکی تھیں کہ انہیں صرف ملتان اور فیصل آباد کے سنیما گھروں میں ہی ریلیز کرنے میں عافیت جانی گئی۔ اس برس اگر کوئی پاکستانی فلمیں کامیاب ہوئیں تو وہ پشتو فلمیں تھیں، جو 11 کی تعداد میں ریلیز ہوئیں اور ان فلموں نے اپنی لاگت ہی پوری نہیں کی بلکہ منافع بھی کمایا-

اگر غیر ملکی فلموں کی بات کی جاے تو اس سال ہالی وڈ کی فلم ڈیڈ پول نے 30 کروڑ روپے کا بزنس کر کے کم از کم ہمارے سنیما مالکان کو امید کی کرن ضرور دکھائی۔

دیگر کامیاب ہالی وڈ فلموں میں گوڈزیلا ورسز کانگ، کنگڈم آف دی پلانٹ آف دی ایپس، گھوسٹ بسٹرز، دی فرسٹ اومین، فیوریئس آمیڈ میکس ساگا، ونی دی پو، بیڈ بوائز رائز اور ڈائی، ان سائیڈ آؤٹ ٹو، سونک تھری، وینم دی لاسٹ ڈانس شامل ہیں۔

سال کے آخر میں ریلیز ہونے والی مفاسا دی لائن کنگ اب تک کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہوئے ہے اور شاہ رخ خان کی اردو ڈبنگ کے باعث پاکستانی سنیما گھروں میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم سول وار، جوکر پارٹ ٹو، دی فال گائے، ٹوئیسٹرز، اٹ اینڈز ود اس، ٹرانسفارمرز ون، سمائل ٹو، دی لارڈ آف دی رنگ اور گلیڈیئٹر ٹو جیسی ہالی وڈ فلمیں حیرت انگیز طور پر پاکستان میں ناکام ثابت ہوئیں۔
انڈین پنجاب کی فلمیں کراچی اور اسلام آباد سرکٹ میں ریلیز ہونے کے باوجود پنجاب سرکٹ میں اچھا بزنس کر گئیں ان میں سب سے کامیاب تو جٹ اینڈ جولیٹ تھری رہی مگر پاکستانی سپر اسٹار عمران عباس کی بھارتی پنجابی فلم جی وے سوہنئیے جی کو زبردست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ نی میں سس کٹنی اور جٹ نو چڑیل ٹکری اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامیاب رہیں۔
2024 میں پاکستانی فلموں کی حالتِ زار اور غیر ملکی فلموں کو اپنے سنیما گھروں میں پنپتا دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو پاکستانی فلمساز فی الفور اچھی فلمیں بنانا شروع کر دیں ورنہ حکومت پاکستان میں انڈین فلموں کی ریلیز پر عائد پابندی ختم  کرے۔ پاکستانی فلم سازوں کی نااہلی کا خمیازہ سنیما مالکان کب تک بھگتتے رہیں گے؟

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ