برطانیہ میں بچوں کی گرومنگ، پاکستانی کمیونٹی پھر نشانے پر

ہم پاکستانیوں کی مصیبت یہ ہے کہ سفید فام برطانوی بچوں کا جنسی استحصال  کرنے والے ان گرومنگ گینگز کے پیچھے عموماً پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے گینگ کا نام سامنے آتا ہے۔

بچوں سے جنسی زیادتی کے درجنوں مقدمات 90 کی دہائی سے تواتر سے سامنے آئے جن میں ایسے گینگز کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جن میں اکثریت پاکستانی نژاد مردوں کی ہے (پیکسلز)

اس وقت امریکہ اور برطانیہ کے سوشل میڈیا پہ برطانیہ میں بچوں کے جنسی استحصال کے گرومنگ گینگز کا شور مچا ہے۔

ہم پاکستانیوں کی مصیبت یہ ہے کہ سفید فام برطانوی بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے ان گرومنگ گینگز کے پیچھے عموماً پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے گینگ کا نام سامنے آتا ہے۔

بچوں سے جنسی زیادتی کے درجنوں مقدمات 90 کی دہائی سے تواتر سے سامنے آئے جن میں ایسے گینگز کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جن میں اکثریت پاکستانی نژاد مردوں کی ہے۔

ان گینگز پہ الزام تھا کہ یہ کم عمر بچوں بالخصوص لڑکیوں سے دوستی کر کے انہیں بہلا پھسلا کر نشے کا عادی بناتے تھے اور پھر انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

برطانوی علاقوں روچڈیل، اولدہام اور روتھرہم سے سامنے آنے والے  کیسز میں دو چار نہیں لگ بھگ 1400 سے بھی زیادہ بچوں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس معاملے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ نشانہ بننے والے بچوں کی واضح اکثریت کا تعلق سفید فام برطانوی کمیونٹی سے تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ برطانوی پولیس نے ان گینگز کو پکڑا اور عدالتوں نے سزائیں دیں، یوں معاملہ دب گیا۔

یوں بھی بچوں کو جنسی تسکین کے استعمال کرنے والے ذہنی مریض ہر رنگ، نسل، قوم سے بالاتر صرف ایک بیمار ذہن، مجرمانہ رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔

وقت کی گرد میں بیٹھ جانے والے بچوں کی گرومنگ کا یہ معاملہ شاید اس قدر شدت کے ساتھ دوبارہ سر نہ اٹھاتا اگر ایلون مسک نے اسے ہوا نہ دی ہوتی۔

ایکس سابقہ ٹوئٹر کے سربراہ اور نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک نے گذشتہ دنوں ایکس کے پلیٹ فارم پہ برطانیہ کے انتہائی دائیں بازو کے ایکٹوسٹ ٹومی رابنسن کی کھل کر حمایت کی۔

ٹومی رابنسن کی ’سائلنسڈ‘ کے نام سے متنازع ڈاکومینٹری بنیادی طور پہ برطانیہ کی مسلم کمیونٹی کے خلاف جذبات ابھارنے کی کوشش ہے جسے ایلون مسک نے ایکس کے پلیٹ فارم سے نہ صرف ریلیز کرنے کی اجازت دی بلکہ اس کی مشہوری بھی کی۔

سفید فام نسل پرست ٹومی رابنسن ایک مسلمان بچے کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کے مجرم قرار پائے اور ان دنوں جیل میں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ان کی رہائی کے لیے ایلون مسک اپنے سوشل میڈیا پہ باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ایلون مسک جرمنی کی نسل پرست سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کو سپورٹ کرتے نظر آئے تھے۔

اگلے امریکی صدر کے مشیر کا ایک  سزا یافتہ سفید فام نسل پرست لیڈر ٹومی رابنسن کی سینہ ٹھونک کر حمایت کرنا یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں مسلمان مخالف لہر کا نقطہ آغاز لگتا ہے۔

عجب کھیل یہ ہے کہ ٹومی رابنسن جو خود کو صحافی کہتے ہیں گذشتہ دو دہائیوں سے برطانیہ میں اسلاموفوبیا، مہاجرین مخالف اور نسل پرست شدت پسند جذبات پھیلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔

رابنسن ایک عرصے تک برطانیہ میں نسل پرستانہ تنظیم ’انگلش ڈیفنس لیگ‘ بھی چلاتے رہے۔

اس تنظیم کے کریڈٹ پہ جہاں اور بہت سے تنازعات آتے ہیں وہیں ناروے کی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملے کا تانا بانا بھی ملتا ہے۔

ناروے کا بدنام زمانہ سفید نسل پرست دہشت گرد آندرس بریوک، جس نے اوسلو میں دہشت گرد حملوں میں تقریباً 77 افراد کو مار ڈالا تھا، اس کے خود ساختہ مینی فیسٹو میں رابنسن کی سابقہ تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ کا نام سرفہرست تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بریوک انگلش ڈیفنس لیگ سے صرف متاثر نہیں تھا بلکہ اس کے کارکنوں سے رابطے میں بھی رہتا تھا۔

تشویش صرف یہ نہیں کہ چند گندے انڈوں کے باعث پوری پاکستانی کمیونٹی بدنام ہو رہی ہے، اصل خدشہ اس بات کا ہے کہ عمومی طور پہ مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو اپنے جان، مال، عزت اور مستقبل کا ڈر ہے۔

اس وقت انسٹاگرام، فیس بک سمیت سوشل میڈیا پہ ایسے درجنوں اکاونٹس موجود ہیں جو فیس بک لائیو جسٹس مہم چلا رہے ہیں۔

یہ اکاونٹس زیادہ تر سفید نسل پرست افراد چلاتے ہیں جن کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ کم عمر لڑکی یا لڑکا بن کر مردوں سے رابطہ کرتے ہیں، چیٹنگ کے دوران اپنی عمر 13 سے 14 برس بتاتے ہیں، اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں ہیں۔

جیسے ہی جھانسے میں پھنسنے والا مرد ملاقات کے لیے راضی ہو جاتا ہے تو یہ فیس بک انسٹاگرام لائیو ویڈیو کے ساتھ اس مرد کو رنگے ہاتھوں پکڑتے ہیں۔ ایسے مردوں کو سرعام پیڈوفائل قرار دے کر موقعے پر ہی مضحکہ خیز سزا دی جاتی ہے اور انہیں پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

تھوڑی سی ویڈیو ریسرچ کریں تو پتا چلتا ہے ایلون مسک کے پسندیدہ ٹومی رابنسن بھی ایسے سٹنگ آپریشنز کرتے نظر آتے تھے۔ اس وقت ایکس کے پلیٹ فارم پہ سینکڑوں کی تعداد میں نسل پرست افراد کے اکاونٹس ابھر رہے ہیں جنہیں واضح طور پہ ایک مہم کے تحت سامنے لایا جا رہا ہے۔

یہ اکاونٹس کو چلانے والے افراد کا واضح جھکاؤ پناہ گزینوں مخالف، سفید نسل پرستی اور اسلام فوبیا سے نظر آتا ہے۔

ابھی ٹرمپ نے حلف نہیں اٹھایا، ابھی ایلون مسک نے وزارت کا قلمدان نہیں سنبھالا، ابھی یورپ کی قیادت مکمل طور پہ دائیں بازو کی سیاسی قوت کے پاس نہیں گئی، ابھی اسلام مخالف، مہاجرین مخالف جذبات تو ہیں مگر باقاعدہ پالیسیاں نہیں بنیں۔

ابھی صرف سٹیج سجایا جا رہا ہے، ابھی زمین ہموار کی جا رہی ہے، عوامی رائے بنائی جا رہی ہے، آگ بھڑکائی جارہی ہے۔

ایسے میں یورپ، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا کی مسلمان بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کو سیاسی اور سماجی طور پہ متحرک ہونا ہو گا۔

بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرم کسی رحم یا حمایت کے حقدار نہیں، ان کو سزا ملتی ہے تو ایک امید ہوتی ہے کہ کسی کو تو اس دنیا میں جوابدہ کیا گیا۔  لیکن چند کالی بھیڑوں کے گناہ کا حساب کتاب پوری کمیونٹی سے لینے کی جو نسل پرستانہ مہم شروع ہو گئی ہے، اس پہ نظر رکھنا ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر