وزیراعظم پاکستان نے نئے سال کے آغاز پر ’اڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک منصوبہ لانچ کیا ہے، جس کے مطابق پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے اہداف طے کیے گئے ہیں۔
یہ اہداف ایک سال، پانچ سال اور دس سال کے لیے طے کیے گئے ہیں۔ یہ پروگرام پانچ ایز پر مشتمل ہے: ایکسپورٹ، ای پاکستان، ایکویٹی، انوائرمنٹ اور انرجی۔ وزیراعظم نے جو اہداف طے کیے ہیں وہ سننے میں تو بہت اچھے محسوس ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اہداف حاصل کیے بھی جاسکتے ہیں؟ خواہشات یا وش لسٹ بنانے اور ان کی تکمیل میں فرق ہوتا ہے۔
ایکسپورٹ کے لیے جو ہدف طے کیا گیا ہے، وہ پانچ سال میں 60 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت پاکستان کی ایکسپورٹ 30 ارب ڈالر ہے، یعنی ہر سال چھ ارب ڈالر کی برآمدات بڑھائی جائیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل سے جڑی ہے۔ چیئرمین ایپٹما کامران ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چند ماہ میں تقریباً 40 فیصد سپننگ یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ پچھلے دو سالوں سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ تین ارب ڈالر کم ہوئی ہیں۔ 50 فیصد سے زیادہ کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت ٹیکسٹائل سیکٹر کو گیس کی فراہمی بند کی جا رہی ہے۔ اگر حالات یونہی چلتے رہے تو پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید بند ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں ایکسپورٹس 30 سے 60 ارب ڈالرز بڑھانے کا ہدف حقیقت سے زیادہ خواب دکھائی دیتا ہے۔‘
ای پاکستان کے تحت فری لانسنگ اور آئی ٹی کی برآمدات پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ گذشتہ مالی سال کی آئی ٹی برآمدات تقریباً تین ارب ڈالر ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کی بندش بڑا مسئلہ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے آئی ٹی کمپنیاں ویتنام اور دبئی منتقل ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 22 لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جبکہ بینک اکاؤنٹس صرف 38 ہزار کے ہیں۔ ان حالات میں آئی ٹی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے۔
انوائرمنٹ یا ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں 50 فیصد کمی کی جائے گی، جب کہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے آلودہ شہروں میں پاکستان کے شہر لاہور کا پہلا نمبر کئی سالوں سے برقرار ہے۔
انرجی کے شعبے میں بہتری کے لیے بھی دعوے کیے گئے ہیں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گی جب آئی پی پیز جیسے مہنگے منصوبوں سے جان چھڑائی جائے اور ملک کو ہنگامی بنیادوں پر سولر انرجی پر منتقل کیا جائے۔ سولر پر ایک یونٹ 12 روپے کا پڑتا ہے اور آئی پی پیز سے ایک یونٹ کا خرچ تقریباً 80 روپے ہے۔ اس کے لیے سیاستدانوں، خصوصی طور پر حکمرانوں، کو بھی قربانی دینا ہو گی کیونکہ آئی پی پیز میں سب سے بڑا شیئر انہی کا ہے۔
اڑان پاکستان پروگرام کے تحت غربت میں 13 فیصد کمی لانے کا ہدف ہے، جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت ملک میں 40 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور سال 2026 میں اس میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اڑان پروگرام کی اڑان صرف ہوا میں ہے۔ اس کا زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح کے پروگرام اس وقت لانچ کیے جاتے ہیں جب معیشت مستحکم ہو، شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہو اور آئی ایم ایف کی محتاجی نہ ہو۔ آئی ایم ایف کے طے کردہ کم مدت والے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں۔ نئے طے کیے گئے لانگ ٹرم اہداف کیسے حاصل ہوں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال 2021 میں پاکستان نے چھ فیصد کی شرح نمو حاصل کی تھی، لیکن وہ مصنوعی گروتھ تھی اور تجارتی خسارہ تاریخی سطح پر بڑھ گیا تھا، جس کا ملک کو نقصان ہوا۔ اب وہ مصنوعی گروتھ بھی حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں۔ پانچ سالوں میں شرح نمو چھ فیصد رکھنے کا ہدف ہے، جبکہ موجودہ حالات یہ ہیں کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو 0.92 فیصد یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اڑان پاکستان پروگرام ایک ہوائی فائر ہے۔ یہ صرف ایک پریزنٹیشن تھی۔ کن بنیادوں پر یہ اہداف طے کیے گئے، آئی ایم ایف کا اس پر کیا ان پٹ لیا گیا ہے، کون سی مارکیٹ ریسرچ کی گئی ہے، اس بارے میں سرکار خاموش ہے۔ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 375 ارب ڈالر ہے، جسے دس سالوں میں ایک ٹریلین ڈالرز تک لے جانے کا ہدف ہے۔ ایک ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کے لیے آدھا ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری چاہیے۔ وہ کہاں سے اور کیسے آئے گی؟
’جو حالات چل رہے ہیں، ان میں جی ڈی پی 375 سے کم ہو کر 350 تک تو جا سکتی ہے، لیکن بڑھ نہیں سکتی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ اعدادوشمار کی بنیاد پر ترقی کے اندازے لگانا درست نہیں ہے۔ مہنگائی میں کمی کی وجہ عام آدمی کی قوت خرید میں کمی کو ظاہر کرتی ہے، اور جہاں تک اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کی بات ہے تو آج اسٹاک مارکیٹ جی ڈی پی کا صرف 12 فیصد ہے، جبکہ سال 2007 میں اسٹاک مارکیٹ جی ڈی پی کا تقریباً 50 فیصد تھی۔ یہ پیالی میں طوفان لانے کے مترادف ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر کام کریں تو اڑان پاکستان پروگرام کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی بڑا ہدف نہیں ہے۔ لیکن کب حکومتیں بدل جائیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں آج تک کسی بھی وزیراعظم نے مدت پوری نہیں کی ہے۔ موجودہ حکومت نے کچھ معاشی اشاریے بہتر کیے ہیں۔ مہنگائی میں کمی، شرح سود میں کمی، ڈالر ریٹ میں استحکام اور اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ترقی جیسے اشاریوں نے امید کی کرن تو پیدا کی ہے، لیکن یہ تمام اشاریے حکومتی کنٹرول میں ہوتے ہیں اور یہ زور بازو سے بھی بہتر کیے جا سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں معاشی ترقی کے اصل اشاریے برآمدات میں اضافہ اور بیرونی سرمایہ کاری کا حصول ہیں۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔