افغانستان میں خلقی پرچمی جماعت کا عروج و زوال کیسے ہوا؟

سال ہا سال سے جاری سیاسی عدم استحکام ملکوں کی افواج کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ افغان فوج بھی نہ بچ سکی۔

مہینہ یہی جنوری تھا اور سال تھا 1965 جب 27 افغان (سب مرد) کابل یونیورسٹی کے جنوب میں کارتے چار کے علاقے میں ایک مکان میں اکٹھے ہوئے اور ایک سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی بنیاد رکھی۔ 

ساٹھ برس قبل بننے والی اس جماعت اور افغانستان میں جمہوریت کے فروغ کی اس وقت کی کوششیں دونوں اکٹھی ہی کیسے ناکام ہوئیں۔ آئیں ایک نظر اس پر یہاں ڈالیں۔

افغانستان کو جمہوری بنانے کی کوششوں کا آغاز تو بادشاہ امان اللہ کے دور میں 1920 میں ہوا جب ملک کو پہلا آئین اور شخصی آذادیاں دینے کا عمل شروع ہوا۔ لیکن سیاسی استحکام کبھی نہ آسکا۔

اس نئی سیاسی جماعت کا قیام 1963 میں افغانستان کے نیم جمہوری - نیم شاہی ہائبریڈ نظام کے متعارف کرائے گئے نئے آئین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رکھی گئی۔ تاہم، اس قانون کو اس وقت کی افغان پارلیمان نے تو منظور کر لیا لیکن بادشاہ ظاہر شاہ نے اس کی کبھی توثیق نہیں کی۔

اس قانونی رکاوٹ نے سیاسی جماعتوں بلکہ اسلام پسندوں کو آگے چل کر اقتدار تک پہچنے کے پرتشدد طریقوں پر غور کرنے پر مجبور کیا۔

افتتاحی اجلاس کے میزبان اور ایک غریب پختون خاندان سے تعلق رکھنے والے نور محمد ترکئی کو جماعت کا رہنما مقرر کیا گیا۔ ان سے کئی سال چھوٹے ببرک کارمل کو، جو ایک سابق طالب علم رہنما اور افغان فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے بیٹے تھے اور جن کے شاہی خاندان سے قریبی تعلقات تھے ان کا نائب بنایا گیا۔

بعد میں دونوں رہنما ملک کے سربراہ بنے ایک خود جبکہ دوسرے یعنی ببرک کارمل کو سوویت فوجی اقتدار میں لائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نئی پارٹی نے 1966 میں اپنے اخبار ’خلق‘ میں اپنا پہلا منشور شائع کیا۔ ترکئی نے اپنی افتتاحی تقریر میں اسے ’مزدوروں اور کسانوں کی پارٹی‘ قرار دیا، جو اس وقت کی افغان آبادی کا ’95 فیصد‘ تھے۔ مقصد اسے عوامی قبولیت کے لیے پچ کرنا تھا۔

اگرچہ پی ڈی پی اے نے عوامی سطح خود کو کبھی مارکسسٹ یا کمیونسٹ نہیں کہا، لیکن اندرونی طور پر پارٹی کی نظریاتی سمت کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔

پی ڈی پی اے کی اندرونی یکجہتی نازک ثابت ہوئی اور قیام کے صرف دو سال بعد یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی – ایک دھڑے کا نام خلقی یعنی عوامی جبکہ دوسری کا نام پرچمی یعنی پرچم پڑ گیا جو پارٹی کے مختصر مدت کے اخبار کا نام تھا۔

خلق پر پشتونوں کا غلبہ تھا جبکہ پرچمی زیادہ تر تاجک یا فارسی/دری بولنے والے تھے۔

افغان فوج

سال ہا سال سے جاری سیاسی عدم استحکام ملکوں کی افواج کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ افغان فوج بھی اس سے نہ بچ سکی۔ پرچم اور خلق دونوں دھڑوں نے فوج میں اثرورسوخ حاصل کرنے اور خفیہ نیٹ ورک بنانے کی کوششیں کیں۔

ابتدائی طور پر پرچمیوں کو سبقت حاصل رہی اور انہوں نے سردار محمد داود کی قیادت میں افغانستان کی پہلی بغاوت کامیاب بنائی۔ 1977 میں سویت یونین کی مصالحت سے پارٹی کے دونوں دھڑے ضم ہوگئے لیکن فوج کے اندر تقیسم برقرار رہی۔

17 اپریل 1978 میں پرچم دھڑے کے بڑے حامی اور فوجی افسر میر اکبر خیبر قتل ہوگئے۔ پی ڈی پی اے نے جنازے کے لیے بڑی عوام اکٹھی کی جنہوں نے وہاں احتجاج شروع کر دیا۔ جواب میں سردار داود نے جماعت کی تمام قیادت کو ماسوائے حفیظ اللہ امین کے گرفتار کر لیا۔ حفیظ نے سویت یونین میں تربیت یافتہ نوجوان فوجی افسروں کی مدد سے 27 اپریل 1978 کو کامیاب ’ثور انقلاب‘ یا بغاوت کر دی۔

کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تعینات فوجیوں نے شہر پر حملہ کر دیا جس میں صدارتی محل (ارگ) پر فضائی حملے بھی شامل تھے۔ انہوں نے ریاستی اداروں اور مواصلاتی ڈھانچے پر قبضہ کر لیا۔ داؤد کو اگلے دن اپنے خاندان کے بیشتر افراد کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔ بغاوت کے دو دن بعد، حکمران انقلابی فوجی کونسل نے اقتدار ترکئی اور پی ڈی پی اے کے حوالے کر دیا، جنہوں نے ایک سول حکومت قائم کی۔

پی ڈی پی اے نے سوویت بلاک کے ممالک کی تقلید کرتے ہوئے ایک جماعتی ریاست قائم کی۔ اس نے مارکسسٹ اصطلاحات کا زیادہ کھلے عام استعمال شروع کر دیا اور ملک کے تین رنگوں والے جھنڈے کو اپنی پارٹی کے سرخ جھنڈے سے بدل دیا۔ کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک سائن بورڈ نے آنے والوں کا استقبال اس نعرے کے کیا جانے لگا: ’دوسرے ماڈل انقلاب والے ملک میں خوش آمدید‘ (یعنی لینن کے 1917 کے اکتوبر انقلاب روس کے بعد اسے دوسرا انقلاب قرار دیا گیا۔

افغانستان کے اندر سیاسی اختلافات نے تشدد کا رنگ اختیار کیا اور بڑے پیمانے پر مخالفین کا قتل ہوا۔ ستمبر انیس سو نواسی میں حفیظ اللہ امین   ترکئی پر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور قتل کا الزام عائد کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوگئے۔

افغانستان کے اندرونی تنازعات کو بین الاقوامی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے لگیں۔اسلام پسندوں کو مغربی، عرب ممالک، پاکستان، ایران اور چین سے زیادہ فنڈنگ اور ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ سیکولر دھڑے نظرانداز ہوگئے۔ پوری فوجی یونٹیں اور چھاؤنیاں بغاوت کر کے باغیوں میں شامل ہو گئیں۔

انیس نوے کی دھائی کے ابتدا میں یہ جماعت تقریبا ختم ہوگئی۔ پہلے سویت یونین کا شیرازہ بکھرا اور پھر پی ڈی پی اے کی حکومت ختم ہوئی۔ جماعت اسلامی کی حکومت نے اس پر مئی 1992 میں پابندی عائد کر دی۔

پی ڈی پی اے کے اندر کے انتشار نے افغانستان پر وہ بھدا رنگ چھوڑے جن کا خمیازہ آج بھی افغان بھگت رہے ہیں۔ یہ جماعت، جمہوریت اور قومی فوج کچھ بھی اب نہیں رہا لیکن اس ملک میں جدیدیت کے حامیوں اور مخالفین میں کشمکش آج بھی جاری ہے۔

اب تو طالبان کے مطابق پارٹی یا جماعت کا وجود بھی جرم بن چکا ہے۔ افغانستان کی قائم مقام وزارت انصاف نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں لفظ ’پارٹی یا جماعت‘ کا استعمال ایک ’جرم‘ ہے۔

افغان وزیر انصاف نے پہلے کہا تھا کہ شرعی قانون میں سیاسی جماعتوں کے وجود کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور ان کی سرگرمیاں عوام کے مفاد میں نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ