پاکستان کے سینیئر سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ 1978 میں افغان صدر سردار محمد داؤد خان نے فوجی آمر جنرل ضیا الحق کو ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کے اعلان کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
بعد میں تاریخ گواہ ہے کہ صدر داؤد کا ارادہ حالات کی وجہ سے تبدیل ہو گیا اور یہ سرحد افغانوں کے نقطہ نظر سے آج بھی متنازع اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی 23 دسمبر، 2024 کو راول پنڈی میں 97 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
پشتو کے دانش ور اور مصنف جمعہ خان صوفی نے 2023 میں ان کا ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر انٹرویو کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ مرحوم آمر جنرل ضیا الحق نے افغانستان سے سرحد تسلیم کروانے کا نادر موقع گنوا دیا۔
جنرل چشتی نے انٹرویو میں افغان صدر کے 1976 میں دورہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک علاقے کے فضائی دورے کے دوران طیارے کے کیپسول میں مہمان صدر اور ذوالفقار بھٹو سمیت صرف تین لوگ تھے جس میں محمد داؤد نے افغانستان میں اس وقت کے سویت یونین کے بڑھتے اثرورسوخ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھٹو سے مدد مانگی۔
جنرل چستی کے بقول افغان صدر نے کہا کہ ’روس کا اثر بہت ہوگیا ہے اور وہ افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ آپ ہماری مدد کریں۔‘
بھٹو نے جواب میں کہا کہ ’آپ ایک وفد بھیجیں ہم بھی ٹیم بنتے ہیں جو اس پر بات آگے بڑھائے گی۔‘
بعض حلقے کہتے ہیں کہ سردار داؤد نے سرحد تسلیم کرنے کی پیشکش بھٹو کو بھی کی تھی، لیکن جنرل چشتی نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
جنرل چشتی کا اصرار تھا کہ پاکستان نے اس وقت افغانستان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا، پھر بھٹو حکومت ختم کر دی گئی۔
جنرل فیض چشتی کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو 1977 میں گرانے کے لیے آپریشن فیئر پلے کا آرکیٹکٹ بھی مانا جاتا ہے۔
اس آپریشن کے نتیجے میں پانچ جولائی، 1977 کو جنرل ضیا الحق کی طویل فوجی آمریت کا آغاز ہوا۔
جنرل چشتی یاد کر کے کہتے ہیں کہ 1978 میں محمد داؤد خان دوبارہ پاکستان کے دورے پر آئے۔
اس دوران ان کے اعزاز میں ایک اہم عشائیے کو یاد کر کے جنرل چشتی کہتے ہیں کہ ’داؤد نے پیشکش کی کہ وہ کھانے کے دوران تقریر میں ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے ہیں۔‘
لیکن جنرل ضیا نے انہیں اس وقت ایسا کرنے سے روک دیا۔ ان کا بقول جنرل ضیا کا ارادہ تھا کہ بعد میں وہ خود افغانستان جائیں گے اور وہاں یہ اعلان کروائیں گے۔
’میں نے جنرل ضیا سے کہا کہ یہ وقت پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا اعلان کروا لیں لیکن ضیا نے مجھے نظر انداز کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ جنرل ضیا کی کابل سے واپسی پر انہوں نے ان سے اعلان نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تھی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا تھا۔
اگرچہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مغربی سرحد کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن افغانستان میں یہ بڑی حد تک غیر تسلیم شدہ ہے۔
یہ دونوں ممالک کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل سرحد ہے جسے برطانوی سلطنت نے 1893 میں قائم کیا تھا۔
اس لائن کو قائم کرنے والے معاہدے پر برطانوی ہندوستانی حکومت کے خارجہ سیکریٹری سر مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبدالرحمٰان خان نے دستخط کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تازہ کشیدگی کے دوران ایک مرتبہ پھر ڈیورنڈ لائن کا تنازع سامنے آیا ہے۔
افغان طالبان نے گذشتہ دنوں پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی میں نہ اسے ڈیورنڈ لائن کہا اور نہ پاک - افغان سرحد، لیکن اس کے لیے ’فرضی لائن‘ کا نام دیا۔
1927 میں پنجاب میں پیدا ہونے والے جنرل چشتی نے 1946 میں برطانوی ہندوستانی فوج میں بطور توپ خانے کے افسر شمولیت اختیار کی تھی۔
1947 میں قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان فوج میں شمولیت اختیار کی۔
جنرل چشتی کا کیریئر کئی دہائیوں پر محیط تھا، جس دوران وہ مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں کور کمانڈر دسویں کور بھی شامل ہے۔
وہ ایک مصنف بھی تھے اور انہوں نے ’Betrayals of Another Kind: Islam, Democracy and the Army in Pakistan‘ نامی کتاب لکھی، جس میں ملک کے سیاسی اور فوجی منظرنامے پر قیمتی رائے دی۔
محمد داؤد خان، جنہوں نے 1953 سے 1963 تک افغانستان کے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں اور بعد میں 1973 میں انہوں نے ایک بغاوت کی قیادت کی جس کے نتیجے میں افغانستان کو جمہوریہ قرار دیا گیا اور وہ ملک کے پہلے صدر بنے۔
داؤد خان کو تاہم 1978 میں ایک کمیونسٹ بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا۔
جعمہ خان صوفی کہتے ہیں کہ اگر ’داؤد اعلان کر دیتے تو اس سے افغانستان میں موجود پاکستان کے خلاف غصہ اور نفرت کا آدھا حصہ ختم ہو جانا تھا۔‘
جنرل چشتی نے اس انٹرویو میں اس وقت فوج کے اندر اعلیٰ ترین اہم تعیناتیوں میں جنرل ضیا کی پسند و ناپسند کا بھی ذکر کیا۔