کراچی: رواں برس ڈکیتیوں کے دوران 48 اموات، شہری خوف زدہ

سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے ابتدائی تین ماہ یعنی جنوری سےمارچ کے دوران کراچی میں 48 افراد سٹریٹ کرائم اور ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر مارے جا چکے ہیں، جن میں سے 10 اموات رمضان کے مہینے میں رپورٹ ہوئیں۔

سندھ پولیس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے ابتدائی تین ماہ کے دوران کراچی میں 48 افراد سٹریٹ کرائم اور ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران مزاحمت میں مارے جا چکے ہیں جبکہ عوام اور پولیس کے درمیان رابطہ کاری کے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 50 ہے۔

جرائم کی مانیٹرنگ اور روک تھام کے لیے قائم تنظیم سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے تین ماہ کے دوران کراچی میں 50 افراد سٹریٹ کرائمز کے دوران مزاحمت میں مارے گئے ہیں جن میں سے 10 اموات صرف رمضان کے مہینے میں رپورٹ ہوئی ہیں۔

ان ہی میں سے ایک 37 سالہ علی رہبر بھی ہیں، جنہیں 29 مارچ کو راہزنوں نے کراچی کے علاقے جوہر چورنگی پل پر ڈکیتی مزاحمت کے دوران قتل کر دیا۔

دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد علی رہبر کے پاس کوئی مستقل ملازمت نہیں تھی۔ ان کے بھائی سید علی شہزر کے مطابق وہ مختلف فوڈ ڈیلیوری کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے تھے، بائیکیا کمپنی کے ساتھ بطور رائیڈر بھی کام کرتے تھے جبکہ رمضان میں کھانے پینے کی اشیا کا ٹھیلا بھی لگاتے تھے۔

سید علی شہزر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا بھائی کرکٹر بننا چاہتا تھا۔ اس کے ٹیم ممبر اسے انضمام الحق کہہ کر پکارتے تھے لیکن کبھی اس کو موقع نہیں دیا گیا کہ اس کا کرکٹر بننے کا جذبہ پروان چڑھ سکے۔‘

بھائی کی موت کے بعد وہ پولیس کی کارکردگی سے نالاں نظر آتے ہیں، کیونکہ علی رہبر کے قتل کا مقدمہ تو درج ہو چکا ہے لیکن بقول ان کے پولیس نے اب تک کچھ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا: ’پولیس کی کارکردگی اگر بہتر ہوتی تو اب تک میرے بھائی کے مجرم قید میں ہوتے لیکن پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔ اگر شہر میں ڈاکوؤں کے بجائے پولیس کا راج ہوتا تو یہ واقعہ بھی رونما نہ ہوتا۔‘

یہ صرف علی رہبر کی ہی کہانی نہیں ہے، شہرِ قائد میں رواں برس اب تک تقریباً 50 خاندان ایسے ہی کرب سے گزر چکے ہیں اور ان کے دکھ کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔

پولیس کیا کر رہی ہے؟

شہر میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز کے معاملے پر اتوار (31 مارچ) کو سندھ کے نئے تعینات ہونے والے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس غلام نبی میمن نے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی، جس کے دوران اہم فیصلے کیے گئے اور سٹریٹ کرائم کے مقدمات کی تفتیش کے لیے 60 اعلیٰ افسران کو تفویض کیا۔

آئی جی سندھ نے ہدایت کی کہ ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل یا زخمی ہونے کے واقعات کی تفتیش ماہر افسر کو دی جائے اور سات بہترین نامزد افسران کیس پر کام کر کے ملزمان کو گرفتار کریں۔

کراچی میں ڈکیتی وارداتوں کے حوالے سے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ عدیل چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ہر زاویے سے کام کر رہے ہیں اور جو جرائم پیشہ افراد جیل سے رہائی پا چکے ہیں، ان کی بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کیونکہ (عموماً دیکھا گیا ہے کہ) جیل سے رہائی پانے والا مجرم جرم کا راستہ واپس اختیار کرتا ہے۔‘

عدیل چانڈیو نے مزید کہا کہ ’تاہم (رواں برس) جتنی بھی اموات ہوئی ہیں، وہ مزاحمت پر ہوئی ہیں۔ اگر کوئی ڈکیتوں کو چیزیں دے دیتا ہے تو اس کو نہیں مارا جاتا۔‘

ایس ایس پی عدیل چانڈیو نے پولیس کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات شیئر کرنے سے گریز کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ ’اگر وہ انویسٹی گیشن کا طریقہ کار بتائیں گے تو اس سے جرائم پیشہ افراد کو مدد ملے گی، تاہم ہر کیس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ پولیس شہر میں امن و امان برقرار کرنے میں کامیاب ہوگی۔‘

پولیس کی جانب سے اقدامات کے دعوے تو کیے جا رہے ہیں لیکن کراچی کے شہری اب گھروں سے باہر نکلنے پر خوف محسوس کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ڈکیتی وارداتوں کی ویڈیوز پر آنے والوں تبصروں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شہری اب نہ تو گھر سے باہر نکلتے ہوئے جیب میں زیادہ نقد رقم رکھتے ہیں اور نہ ہی مہنگا فون کیونکہ بقول ان کے ’پتہ نہیں ہوتا کہ کب کوئی ڈکیت آجائے اور واردات کرکے چلا جائے۔‘

دوسری جانب شہریوں نے سی سی وی فوٹیج کی مدد سے مبینہ ڈاکوؤں کی تصاویر حاصل کرکے انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے، تاکہ پولیس ان افراد کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کرسکے۔

جرائم پر رپورٹ کرنے والے سینیئر صحافی نوید کمال کہتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم کا تعلق بے روزگاری سے جڑا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نوید کمال نے بتایا کہ ’2018 کے بعد سے بے روزگاری کی شرح میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کے اثرات بڑھتے ہوئے جرائم کی صورت میں نظر آیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جرائم بڑھنے کی دوسری وجہ سزا کا نہ ہونا ہے۔ مجرم جیل جاتے ہیں لیکن کچھ ہی دنوں یا ایک ہفتے میں جیل سے رہائی حاصل کرلیتے ہیں۔ انہیں عدالتوں سے سزا ہی نہیں ملتی۔‘

بقول نوید کمال: ’ہمارا کرمنل جسٹس سسٹم مضبوط نہیں ہے جبکہ سٹریٹ کرائم کے سیکشن میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’پولیس کے دو شعبے ہیں آپریشن اور انویسٹی گیشن۔ آپریشن میں ایس ایچ او کو اپنی کار کردگی دکھانی ہوتی ہے اور وہ ایف آئی آر درج کرتا ہے، لیکن اس کے بعد جب کیس انویسٹی گیشن کے شعبے میں جاتا ہے تو تفتیشی پولیس پر کوئی ایسا دباؤ نہیں ہوتا سزا کروانے کا، لہذا وہ عدم دلچسپی دکھاتے ہیں کیونکہ اس میں عدالت جانا ہوتا ہے اور شواہد اکھٹے کرنے کا سارا خرچہ ان کی جیب سے ہی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں سے پیسہ لے کر انہیں آزاد کر دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے تجویز دی کہ ’جرائم کی روک تھام کے لیے کراچی سے ملحقہ کچی آبادیوں کا ریکارڈ بھی پولیس کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ مکان چھوٹے ہوتے ہیں، وہاں کون رہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، کب کرائے پر آرہا ہے، کچھ پتہ نہیں ہوتا، لہذا پولیس یہ لازمی کردے کہ جو کوئی بھی کمرہ کرائے پر لے، وہ بائیو میٹرک ضرور کروائے۔‘

نوید کمال کا مزید کہنا تھا کہ ’حال ہی میں آئی جی سندھ نے سٹریٹ کرائمز کے مقدمات کی تفتیش کے لیے 60 اعلیٰ افسران کو تفویض کیا ہے۔ یہ اقدام اچھا ہے لیکن سندھ حکومت، پولیس اور عدلیہ کو اس میں ترمیم کرنی پڑے گی اور جرائم پیشہ افراد کی ضمانتوں کے حوالے سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

سندھ حکومت کا ’ناکامی‘ کا اعتراف، مگر اقدامات کا عہد

سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے گذشتہ دور حکومت میں شہر قائد میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہیں تھی، جو نگران حکومت کے دوران مزید بگڑ گئی تاہم اب صوبائی حکومت صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے پر عزم ہے۔

منگل کو سینیٹ الیکشن کے موقعے پر سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعلیٰ سندھ نے سٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ انہوں نے ’اپنی گذشتہ حکومت کے دوران صوبے میں امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے تھے۔ کراچی میں سٹریٹ کرائمز پر قابو پالیا تھا اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کو روکنے کے لیے دریائے سندھ کے پشتے کے ساتھ پولیس ناکے لگائے گئے تھے۔‘

اگرچہ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہیں تھی، لیکن یہ اتنی خراب نہیں تھی جتنی (رواں برس) جنوری اور فروری میں دیکھی گئی۔‘

سید مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ ’ان کی حکومت سٹریٹ کرمنلز اور ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے اور جلد ہی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔‘

ایم کیو ایم کی حکومت چھوڑنے کی دھمکی

دوسری جانب شہر قائد میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے ڈالی۔

منگل کو سینیٹ الیکشن کے موقعے پر سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ ’اگر کراچی کے نوجوانوں کو چند ہزار روپے کے لیے مارا جاتا رہا تو ہر قسم کی حکومت چھوڑ دیں گے۔‘

انہوں نے صوبے کی حکمران جماعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی کے 15 سالہ دور میں امن و امان بحال نہیں ہوا۔ حکومت عوامی نمائندوں کو بٹھا کر نیبرہڈ واچ سسٹم بنائے، کراچی کےحالات دوبارہ آپریشن کے متقاضی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان