پاکستان نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ سپین جانے کی کوشش میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے واقعے میں متعدد پاکستانی بھی شامل ہیں۔
دفتر خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ’اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے، جن میں کئی پاکستانی بھی شامل ہیں، مراکش کے ساحلی شہر داخلہ کے قریب ایک کیمپ میں موجود ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’رباط میں پاکستان کا سفارت خانہ مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔‘
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’رباط میں ہمارے سفارت خانے نے اطلاع دی ہے کہ موریطانیہ سے روانہ ہونے والی ایک کشتی، جس میں پاکستانی شہریوں سمیت 80 مسافر سوار تھے، مراکش کے ساحل کے قریب الٹ گئی ہے۔‘
بیان کے مطابق سفارت خانے کی ایک ٹیم متاثرہ پاکستانیوں کی مدد اور ضروری سہولت فراہم کرنے کے لیے داخلہ روانہ کر دی گئی ہے۔
’وزارت خارجہ میں کرائسس مینجمنٹ یونٹ (سی ایم یو) کو فعال کر دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے متعلقہ سرکاری اداروں کو متاثرہ پاکستانیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔‘
اس سے قبل تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ واکنگ بارڈرز نے جمعرات کو کہا ہے کہ مغربی افریقی ملک موریطانیہ سے کشتی کے ذریعے سپین پہنچنے کی کوشش کرنے والے 50 تارکین وطن کے ڈوب کر جان سے جانے کا خدشہ ہے، جن میں 44 پاکستانی بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میڈرڈ اور ناوارا میں قائم گروپ نے بتایا کہ مراکش کے حکام نے بدھ کو ایک کشتی سے 36 افراد کو بچایا جو موریطانیہ سے دو جنوری کو سپین کے لیے روانہ ہوئی تھی اور اس میں 66 پاکستانیوں سمیت 86 تارکین وطن سوار تھے۔
واکنگ بارڈرز کی سی ای او ہیلینا مالینو نے ایکس پر لکھا کہ تازہ ترین واقعے میں ڈوبنے والوں میں سے 44 کا تعلق پاکستان سے تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ان تارکین وطن نے سمندر عبور کرتے ہوئے 13 دن اذیت میں گزارے لیکن انہیں بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا۔‘
واکنگ بارڈرز کے مطابق 2024 میں ریکارڈ تعداد میں یعنی 10 ہزار457 تارکین وطن سپین پہنچنے کی کوشش میں جان سے چلے گئے، جو ایک روز میں 30 اموات کی اوسط ہے۔
گروپ نے مزید کہا کہ زیادہ تر تارکین وطن موریطانیہ اور سینیگال جیسے مغربی افریقی ممالک سے بحر اوقیانوس کا راستہ عبور کرنے کی کوشش کے دوران سپین کے کینیری جزائر کی طرف منتقل ہو رہے تھے۔
واکنگ بارڈرز نے مزید کہا کہ اس نے چھ روز قبل لاپتہ ہونے والی کشتی کے بارے میں گروپ میں شامل تمام ممالک کے حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تارکین وطن کے لیے ہنگامی فون لائن فراہم کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم ’الارم فون‘ نے کہا کہ اس نے 12 جنوری کو سپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کو اس کشتی کے بارے میں الرٹ کر دیا تھا۔
تاہم ہسپانوی سروس نے کہا کہ اسے کشتی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر واکنگ بارڈرز کی پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کینیری جزائر کے رہنما فرنینڈو کلاویجو نے متاثرین کے لیے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سپین اور یورپ پر زور دیا کہ وہ مزید سانحات کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بحر اوقیانوس افریقہ کا قبرستان نہیں بن سکتا، وہ (یورپی ممالک) اس انسانیت سوز ڈرامے سے منہ موڑنا جاری نہیں رکھ سکتے۔‘
گذشتہ ماہ کے وسط میں بھی یونان کے جنوبی جزیرے کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوب گئی تھی، جس میں پانچ پاکستانی ڈوب کر چل بسے تھے جبکہ 39 افراد کو یونانی بحریہ نے بچا لیا تھا۔
اس سے قبل بھی ایسے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں پاکستانیوں کی اموات ہوئیں، جو بہتر مستقبل کی آس میں سمگلروں کو بھاری رقم دے کر پُرخطر سفر اختیار کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے انسانی سمگلروں کے خلاف حالیہ دنوں میں کئی اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں گرفتاریوں سمیت ان کے اثاثے ضبط کیا جانا بھی شامل ہے۔
گذشتہ روز وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’انسانی سمگلروں کے 500 ملین (50 کروڑ) روپے سے زائد کے اثاثے ضبط ہو چکے ہیں اور مزید ضبط کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بیرون ملک انسانی سمگلنگ کا ’مکروہ دھندہ چلانے والے انتہائی مطلوب سمگلروں کی حوالگی کے لیے انٹرپول سے تعاون حاصل کرنے کی ہدایت بھی کر چکے ہیں۔