کشتی حادثہ: بچ جانے والوں کا یونانی حکام کے خلاف مقدمہ

رواں برس جون میں جہاز کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے 40 افراد کی جانب سے دائر مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’یونانی حکام فوری طور پر مداخلت کرنے میں ناکام رہے اور جہاز میں سوار افراد کو بچانے کے لیے بروقت مناسب آپریشن کا اہتمام نہیں کیا گیا۔‘

دی ہیلینیک کوسٹ گارڈ کی جانب سے 14 جون 2023 کو جاری کی گئی اس تصویر میں یونان کے پیلوپونیس ساحل کے قریب ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی کا ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر سے لیا گیا فضائی منظر دکھایا گیا ہے، جسے حادثہ پیش آنے کے نتیجے میں درجنوں اموات ہوئی ہیں اور سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں (تصویر: دی ہیلینیک کوسٹ گارڈ/ ہینڈ آؤٹ/ روئٹرز)

رواں برس جون میں یونان کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں بچ جانے والے افراد نے جمعرات کو یونانی حکام کے خلاف مقدمہ دائر کردیا، جس میں ان پر کشتی میں سوار افراد کی جانوں کے تحفظ کے لیے فرض کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ڈوبنے والی ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں پاکستان، شام اور مصر سے تعلق رکھنے والے 400 سے 750 کے درمیان افراد سوار تھے، جن میں سے تقریباً 104 افراد کو زندہ بچایا گیا اور صرف 82 لاشیں ہی برآمد ہوسکیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق زندہ بچ جانے والوں نے کشتی کے ڈیک کے اوپر اور نیچے بدترین حالات کا ذکر کیا ہے، جہاں لوگوں کو کوئی خوراک یا پانی دستیاب نہیں تھا اور یونانی کوسٹ گارڈ کی جانب سے اس کشتی کو کھینچنے کی کوشش کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں وہ الٹ گئی۔

دوسری جانب یونانی کوسٹ گارڈ اور حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ کئی گھنٹوں تک کشتی کی نگرانی کرتے رہے تھے اور انہوں نے اسے کھینچنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

اس حادثے کی وجوہات کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں اور انہیں مکمل ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعرات کو حادثے میں زندہ بچ جانے والے 40 افراد نے مقدمہ دائر کیا، جن کے ایک نمائندے ہیلینک لیگ فار ہیومن رائٹس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’یونانی حکام فوری طور پر مداخلت کرنے میں ناکام رہے اور کشتی میں سوار افراد کو بچانے کے لیے بروقت مناسب آپریشن کا اہتمام نہیں کیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کشتی ’واضح طور پر بہتر حالت میں نہیں‘ تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے حالیہ برسوں میں بحیرہ روم میں پیش آنے والے اس بدترین حادثے کی وجوہات کے بارے میں ’فوری، مکمل اور قابل اعتماد تحقیقات‘ کا مطالبہ بھی کیا۔

لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے عدالتی حکام سے درخواست کی ہے، جو اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں کہ کشتی کو سمندر سے نکالا جائے۔

کئی خاندان حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملبے کو سمندر کی تہہ سے نکال کر ان سینکڑوں افراد کی لاشیں برآمد کی جائیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کشتی میں پھنسے ہوئے تھے۔

دوسری جانب یونان کے حکومتی حکام نے جون میں ایک بیان میں کہا تھا کہ جہاں کشتی ڈوبی وہاں سمندر میں گہرائی تقریباً پانچ ہزار میٹر ہے، جس کے باعث ملبہ نکالے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا