اسلام آباد میں قدیم انسان کے آثار: تحقیق کی راہ کیوں رک گئی؟

وادیِ سواں سے پتھر کے زمانے کی نایاب و نادر کھوپڑیاں دریافت ہوئیں مگر اس کے بعد تحقیق کی گاڑی دو وجوہات کی بنا پر رک گئی۔

اسلام آباد کے عجائب گھر میں موجود دو انسانی کھوپڑیاں (سجاد اظہر)

اسلام آباد کے پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے صدر دروازے پر ایک دیو ہیکل بلیو ویل کا ڈھانچہ ایستادہ کیا گیا ہے۔ روزانہ یہاں پر سینکڑوں لوگ آتے ہیں جو زمین پر زندگی کی موجودگی کے ہزاروں لاکھوں سال پرانے شواہد کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمین پر زندگی کن کن ادوار سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے۔

یہیں پر ایک گیلری نسلِ انسانی کے ارتقا کی بھی ہے جہاں پر انسان کے آبا و اجداد کی کھوپڑیاں پڑی ہوئی ہیں جو چھوٹی بڑی اور مختلف شکلوں کی ہیں۔

گولڑہ میں 40 سال پہلے حیران کن دریافت ہوئی

اس گیلری میں جو انسانی کھوپڑیاں موجود ہیں وہ کینیا سے ملی ہیں جو امریکہ نے پاکستان کو تحفے کے طور پر دی تھیں۔ ان کو آسٹریلو پیتھیکس ایفرینسز Australopithecus afarensis کہتے ہیں۔

پتھر کے ابتدائی زمانے میں جو انسانی نسلیں ارتقائی مراحل سے گزر رہی تھیں ان میں یہ نسل بہت اہم سمجھی جاتی ہے جس کے شواہد براعظم افریقہ میں ملتے ہیں۔ ان کا عرصہ 29 لاکھ سال سے 39 لاکھ سال پرانا ہے۔

میوزیم میں رکھی دو کھوپڑیاں ایسی بھی ہیں جو پاکستان سے برآمد ہوئی ہیں اور پاکستان میں بھی یہ اسلام آباد کے علاقے گولڑہ سے 1985 میں برآمد ہوئی تھیں۔ یہ آج کے جدید انسان یعنی Homo sapiens کی کھوپڑیاں ہیں۔

پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ایک سائنس دان سے جب پوچھا گیا کہ اسلام آباد سے اتنی اہم دریافت کے بارے میں ہم اتنا کم کیوں جانتے ہیں اور کیوں یہاں پر یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ یہ کھوپڑیاں اسلام آباد سے ملی تھیں؟ تو انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کی ایک وجہ ہماری مذہبی حساسیت ہے۔

انہوں نے کہا، ’ہم بطور مسلمان انسانی ارتقا کے بارے میں ڈارون کی تھیوری کو نہیں مانتے۔ جب یہ کھوپڑیاں ملی تھی تب ان کو امریکہ بھیجا گیا تھا تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ کتنی پرانی ہیں تو انہوں نے تصدیق کی کہ یہ ہومو سیپیئنز کی ہیں۔ انہوں نے جب یہ کھوپڑیاں ہمیں واپس کیں تو اس کے ساتھ کچھ دیگر کھوپڑیاں بھی میوزیم کے لیے بھیج دیں جو ہومو سیپیئنز سے پہلی والی نسلوں کی ہیں، لیکن اب ہمیں مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ اسے انسان کے ارتقا سے تعبیر نہ کریں۔ کچھ نے تو باقاعدہ اس کی شکایت وزیر اعظم کے پورٹل پر بھی کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب ہماری وزارت نے ہم سے باز پرس کی تو ہم نے جواب دیا کہ میوزیم میں اسے ایک سائنسی حوالے کے طور پر رکھا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میوزیم کے اس سیکشن میں جو معلومات درج کی گئی ہیں ان کے مطابق ’بن مانس دوسرے جانوروں کے مقابلے میں سوچنے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت اہم ہیں جو کافی حد تک انسان سے مماثلت رکھتے ہیں۔ گو کہ بن مانسوں کی کئی نسلیں معدوم ہو چکی ہیں لیکن مختلف ادوار کی چٹانوں میں ان کے فاسل پائے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’خطۂ زمین پر بن مانس مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے ایک جانور جسے آسٹریلوپیتھکس کہا جاتا ہے میں تبدیل ہو گئے جو بتدریج ترقی کرتے ہوئے ہومو اریکٹس جیسے ترقی یافتہ جانوروں کی شکل اختیار کر گئے۔

ان تمام جانداروں کے فاسلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیدھے کھڑے ہو کر نہ صرف دو ٹانگوں پر چل سکتے تھے بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے اور گروہ بنا کر اپنی خوراک بھی حاصل کر سکتے تھے۔

’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ کا حجم بتدریج بڑا ہونے لگا اسی مناسبت سے ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا، جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے پتھر کے اوزار بنانے شروع کر دیے جو ان کی بقا میں بہت معاون ثابت ہوئے۔ اس کی مناسبت سے انسانی دماغ کا حجم اور سوچنے کی صلاحیت باقی تمام جانداروں سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے انسان نے باقی تمام جانداروں پر برتری حاصل کر لی یعنی یہ اشرف المخلوقات ٹھہرا۔‘

یہ بن مانس دراصل پتھر کے دور کا انسان تھا۔

انسان کی مختلف اقسام

آج دنیا میں صرف ایک ہی انسانی قسم یعنی سپیشیز پائی جاتی ہے مگر آج سے صرف 50 ہزار سال قبل کم از کم پانچ مختلف اقسام کے انسان موجود تھے، جن میں نینڈرتھال بھی شامل ہیں۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ آئندہ مزید ایسی نسلیں دریافت ہو جائیں جن سے آج کے سائنس دان بےخبر ہیں۔

وادیٔ سواں میں پتھر کے دور کا انسان موجود تھا

جرمنی کے ماہر ِ آثار قدیمہ ہیلمٹ ڈی ٹیرہ اورسکاٹ لینڈ کے تھامس پیٹرسن نے دریائے سواں میں راولپنڈی کے نزدیک چونترہ، روات، اڈیالہ اور خصالہ کلاں میں پتھر کے دور کے ایسے اوزار دریافت کیے ہیں جو 20 لاکھ سال تک پرانے ہیں۔ اسی دریا سے ہرن، گینڈے، مگر مچھ، زرافے اور چوہے کے فوسلز بھی ملے ہیں جو ایک کروڑ 40 لاکھ سال پرانے ہیں۔

گولڑہ سے ملنے والی کھوپڑیاں ہومو سیپئنز کی ہیں۔ براعظم افریقہ میں اس نسل کی باقیات کے جو فوسلز ملے ہیں ان سے ماہرین یہ قیاس کرتے ہیں کہ یہ تین لاکھ سال سے زمین پر موجود ہیں

دریائے سواں کے ارد گرد وسیع غاروں کو دیکھتے ہوئے ہی ماہرین نے دریا میں کھدائیاں کر کے پتھر کے اوزار دریافت کیے تھے۔ ممکن ہے کہ مزید کھدائیاں ہوتیں تو مزید شواہد بھی ملتے مگر پھر یہ سلسلہ متروک ہو گیا۔

طویل عرصہ سے نہ تو کسی بیرونی مشن نے یہاں پر کوئی کام کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کے اپنے اداروں نے، گولڑہ سے ملنے والی یہ قدیم کھوپڑیاں بھی کسی محقق کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ مگر دوسری طرف پاکستان کی مذہبی اور دفاعی حساسیت کھڑی ہے۔ مذہب انسانی ارتقا کی تاریخ کو نہیں مانتا اور دفاع یہ اجازت نہیں دیتا کہ دریائے سواں میں غیر ملکی ماہرین آئیں جس کے ارد گرد حساس دفاعی تنصیبات واقع ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ