پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے ایک مرتبہ پھر خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقے متعارف کروانے کے علاوہ علمائے کرام اور خطیبوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منصوبے پر عمل درآمد کے لیے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
محکمہ بہبود آبادی پنجاب کی ڈائریکٹر جنرل ثمن رائے کے مطابق صوبائی حکومت نے آبادی پر قابو پانے کے لیے سوشل میڈیا اور نیوز چینلز کے علاوہ ٹی وی ڈراموں کے ذریعے اور صوبائی سطح پر سکالرز، علما کرام، امام مساجد اور خطیبوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شہریوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے تحت بچوں کی تعداد کم رکھنے کا شعور دیا جائے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہمارے دیہی علاقوں میں اور ان علاقوں میں جہاں بد امنی زیادہ ہے وہاں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے موثر حکمت عملی پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت آگاہی اور سہولیات ہی فراہم کر سکتی ہے لیکن عمل کرنا لوگوں کا کام ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگوں میں شعور ضرور آ رہا ہے کہ بچے کم رکھے جائیں لیکن آبادی پہلے سے اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اب بچے کم بھی ہوں تو فرق پڑنے میں کافی وقت درکار ہو گا۔‘
صوبائی حکومت کی حکمت عملی کیا ہے؟
ثمن رائے نے بتایا کہ انہوں نے حکمت عملی بنائی ہے کہ 3600 مساجد میں خطیب خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق لوگوں کو آگاہ کریں گے۔
’ہر ضلعے سے سو خطیبوں اور علما کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور محکمے کی جانب سے ہر ضلعے میں ایک فوکل پرسن نامزد ہو گا۔
’صوبائی فوکل پرسن کو 20 ہزار اور ضلعی فوکل پرسن کو 10 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ ادا کیا جائے جبکہ تسلی بخش کارکردگی پر ہر خطیب کو 5000 روپے ماہانہ اعزازیہ بھی دیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے علما کرام کی خدمات ختم کر دی جائیں گی، جب کہ ڈپٹی کمشنر کو ماہانہ 25 ہزار روپے ملیں گے۔
’محکمے کی جانب سے ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا ایپس اور نیوز چینلز پر اشتہارات کے ذریعے آگاہی مہم چلانے کا لائحہ عمل بھی تیار کر لیا گیا ہے۔‘
ثمن رائے کے مطابق: ’ہمارے فیلڈ سٹاف کے ذریعے آگاہی مہم کے ساتھ مانع حمل ادویات، کنڈوم اور دیگر اشیا پہلے ہی گھر گھر پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں مزید بہتری لائی جا رہی ہے جب کہ عملے میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔‘
پاکستان کو دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح معاشی مشکلات سے زیادہ آبادی میں بے ہنگم اضافے کا چیلنج درپیش ہے۔ ادارہ برائے شماریات کی رپورٹ کے مطابق ملک کی کل آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر سالانہ آبادی میں 2.55 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اس سے قبل 2017 میں پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ اور 1998کی مردم شماری کے مطابق آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی۔
پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے لہذا اس کی آبادی بھی زیادہ بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1998 میں سات کروڑ 36 لاکھ تھی جو 2023 کی مردم شماری میں 2.53 فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ بڑھ کر 12 کروڑ 76 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔
دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ کی آبادی رہی، جو 1998 میں تین کروڑ سے زیادہ جب کہ 2023 میں 2.57 فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ پانچ کروڑ 56 لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔
خیبر پختونخوا کی آبادی 1998میں دو کروڑ سے زیادہ تھی اور 2.38 فیصد سالانہ اضافے کے بعد چار کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے، جب کہ بلوچستان کی آبادی بھی 26 سال میں 65 لاکھ سے 3.20 فیصد سالانہ اضافے کے بعد ایک کروڑ 48 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔
آبادی کے اس بے ہنگم اضافے سے ملکی وسائل کم پڑتے جا رہے ہیں لیکن آبادی ہے کہ کنٹرول ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ملک کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’آبادی کا بم پھٹ چکا ہے، جسے سنبھالنا مشکل بنتا جا رہا ہے۔‘
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کیوں کامیاب نہیں؟
مختلف سماجی ایشوز پر کام کرنے والی تنظیم ایس پی او پنجاب کے سربراہ شاہنواز خان کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے گذشتہ کئی دہائیوں سے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے محکمہ بہبود آبادی بھی قائم کیا گیا لیکن خاطر خواہ نتائج موصول نہیں ہوئے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام زیادہ ہے۔ لوگ بچوں کی پیدائش روکنا مذہبی اور سماجی طور پر معیوب سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی صرف آگاہی مہم چلا کر نتائج کا انتظار کیا جاتا ہے۔ عملی طور پر حالات یہ ہیں کہ اب بھی مانع حمل ادویات یا کنڈوم وغیرہ لوگوں کو پردہ داری کے ساتھ دستیاب نہیں ہیں۔ جو لوگ بچے کم پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ بھی عمل نہیں کر پا رہے۔‘
شاہنواز خان کے مطابق: ’پیزا تو آن لائن آرڈر پر مل جاتا ہے لیکن آبادی کنٹرول رکھنے کے لیے ضروری استعمال کی چیزیں خریدنا مشکل ہے۔ یہ تمام اشیا آن لائن لوگوں کو گھروں پر پہنچائی جائیں تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ اسی طرح دور دراز علاقوں میں جہاں آبادی پر کنٹرول کی زیادہ ضرورت ہے، وہاں محکمہ بہبود آبادی کا نیٹ ورک مؤثر نہیں ہے۔‘
دوسری جانب اسلامی نطریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے ہیں وہ آبادی پر قابو پانے کے لیے غیر اسلامی طریقوں کی حمایت نہیں کر سکتے، تاہم مکمل اور موثر منصوبہ بندی کے ذریعے شہریوں کو اپنی ضرورت کے مطابق خاندانی حکمت عملی بنانے کا شعور دینا ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہم خاندانی منصوبہ بندی کے معاملہ پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، لیکن آبادی پر قابو پانے کے لیے غیر اسلامی طریقے اپنانے کی حمایت نہیں کر سکتے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اسلامی طور پر کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے لیے یہ شرط نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ کتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں، البتہ تعلیم اور شعور کے ذریعے لوگوں کو یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق بچے پیدا کریں۔‘
اس حوالے سے فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی ریجنل سربراہ ثمینہ اشرف کہتی ہیں کہ حکومتی کوششوں کے باوجود بھی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’کم عمری کی شادیاں اور لڑکیوں کی بجائے لڑکا پیدا کرنے کی خواہش آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔ یہ رحجان سب سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ زیادہ بچے پیدا کر کے ان سے کام کروایا جاتا ہے جبکہ بھیک منگوانے والوں میں بھی بچے زیادہ پیدا کرنے کی رغبت دیکھنے میں آتی ہے۔‘
ثمینہ اشرف نے مزید کہا کہ ’تعلیم عام کرنے کے ساتھ حکومت کو قانون سازی کرنا ہوگی کہ ہر شادی شدہ جوڑا 18 سال سے زیادہ عمر کا ہو۔ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے بھی سزا و جزا کا قانون بنایا جائے۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد کی مانٹیرنگ لازمی ہے۔ علما اور خطیبوں کا کردار یقینی بنایا جائے کیونکہ لوگ مذہبی طور پر بہت حساس ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ایران کی ہے انہوں نے مذہبی طور پر آگاہی سے آبادی پر قابو پانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔‘