ایشیائی ترقیاتی بینک نے پیر کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک پاکستان کی شہری آبادی کا تناسب بڑھ کر 40 فیصد ہو جائے گا اور دس کروڑ کے لگ بھگ لوگ شہروں میں آباد ہوں گے۔
بینک کا کہنا ہے کہ شہر آبادی میں اتنی تیزی سے بڑھتے اضافے کے متحمل نہیں ہو سکتے، کیوں کہ جتنی رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے پانی، بجلی، ہسپتال، سیورج، تعلیم اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اپنے نامہ نگاروں کے ذریعے جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے چار بڑے شہروں کو تیزی سے بڑھتی آبادی سے کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔
کراچی: امر گرڑو
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو آبادی میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے۔ آبادی میں اضافے کے کئی اسباب ہیں۔ دو بندرگاہوں اور ملک کے اہم ترین کاروباری مرکز ہونے کی وجہ سے کراچی میں معاشی مواقع زیادہ ہونے کے باعث ملک بھر سے لوگ بہتر روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں۔
اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مختلف خطوں میں آنے والی آفات سے متاثرہ لوگ بھی کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ 1905 کی دہائی میں پانچ لاکھ آبادی والے شہر کراچی کی آبادی اب تقریباً دو کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔
مگر اتنی آبادی کے شہر کا بنیادی انفرسٹرکچر ناکافی ہے۔
بڑھتی آبادی کے لیے ناکافی سہولیات ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے باعث ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔ نکاسی آب کا بہتر نظام نہ ہونے کے باعث شہر کو ہر سال اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پانی کی کمی کے باعث نہ صرف کچی آبادیاں بلکہ پوش علاقے بھی شدید متاثر ہیں۔
بڑھتی آبادی کے لیے مطلوبہ بجلی نہ ہونے کے باعث متعدد علاقے بجلی کی طویل لوڈشڈنگ سے دوچار ہیں۔
عالمی معیار کے مطابق ایک شہری علاقے میں 1,000 افراد کے لیے تقریباً نو مربع میٹر سبزہ یا عوامی پارک ہونا چاہیے، لیکن کراچی میں یہ تناسب انتہائی کم ہے۔ آبادی کے تناسب سے شہر میں عوامی پارک نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہر میں چھ فوجی چھاؤنیوں، وفاقی حکومت کے درجنوں اداروں، شہری حکومت، صوبائی حکومت کے درمیاں اختیارات تقسیم ہونے کے باعث شہر میں بنیادی کام بشمول کچرا اٹھانے پر اختلاف کے باعث شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
شہر میں غریب آبادیوں کی حالت تشویشناک ہے، جو مزید غربت کی طرف جا رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسی آبادیاں بہتر سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
لاہور: ارشد چوہدری
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی شہری آبادی کا بے ہنگم اضافہ ہو رہا ہے۔ 1917کی مردم شماری میں لاہور کی آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد جبکہ 2023 میں پانچ سال کے دوران 19 لاکھ اضافے کے ساتھ ایک کروڑ 30 لاکھ ہو چکی ہے۔ شہر کے اطراف نئی ہاوسنگ سوسائیٹیوں اور آبادیوں کے پھیلاؤ میں غیر معمولی اضافہ ہوا جس کی وجہ سے فصلیں اگانے والی زمینیں تعمیرات کی نذر ہوتی جا رہی ہیں۔
رنگ روڑ شہر کے گرد شہر میں رش کم کرنے کے لیے بنایا گیا، لیکن اس کے اطرف بھی رہائیشی کالونیاں بنتی جا رہی ہیں۔ آبادی کے اس بے ہنگم پھیلاؤ سے ہسپتال، سکول کالجز، سیوریج کا نظام، پارک، گراونڈ، تھانے، بجلی کا نظام ودیگر بنیادی سہولیات کم پڑتی جا رہی ہیں۔ سرسبز زمینوں میں کالونیوں اورشہر میں کئی کئی منزلہ پلازوں کی تعمیرات تیزی سے جاری ہیں۔
اس شہری پھیلاؤ میں اضافہ پر قابو نہ پایا گیا تو کچھ عرصہ بعد شہریوں کی نجی زندگی مزید مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے
پشاور: اظہار اللہ
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پشاور کی آبادی میں کی ایک وجہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا میں ضم ہونا ہے۔
تاہم یہ واحد وجہ نہیں ہے کیوںکہ خیبر پختونخوا اربن پالیسی یونٹ کے مطابق شدت پسندی کے دوران ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع سے نقل مکانی اور شہریوں کا پشاور میں آباد ہونا پشاور کی بڑھتی آبادی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔
اسی طرح اربن پالیسی یونٹ کے مطابق پشاور کی آبادی 1998 میں تقریباً 20 لاکھ سے بڑھ کر اب 2017 کے مردم شماری کے مطابق 42 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے اور اضافے کی شرح 3.9 فیصد ہے۔
اسی ادارے کے مطابق پشاور میں بڑھتی آبادی کی ایک وجہ یہاں پر بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی آباد ہونا بھی ہے۔
اب اس بڑھتی آبادی کی وجہ سے ایشیای ترقیاتی بینک کے مطابق بڑھتی آبادی کے ساتھ سہولیات کم ہونے کی وجہ سے پشاور کم رہنے کے قابل ہوتا جا رہا ہے اور یہاں سہولیات کا فقدان ہو رہا ہے۔
اربن پالیسی یونٹ کے مطابق پشاور میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے پانی کی قلت واقع ہو گئی ہے، جبکہ اسی کے ساتھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ یا کوڑا کرکٹ میں اضافے سے اس کو تلف کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھے پشاور کو درپیش ہے لیکن اس میں قدرے بہتری تب آئی ہے جب پشاور میں بی آر ٹی شروع کی گئی۔
لیکن یہ ناکافی ہے۔ بی آرٹی میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً سات لاکھ لوگوں کو سفر کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ پشاور میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے ہسپتالوں میں بھی رش بڑھ گیا ہے اور خاص کر سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد علاج معالجے کے لیے جاتے ہیں۔
اسلام آباد: حسنین جمال
اسلام آباد پاکستان کا سب سے نیا شہر ہے، اور واحد شہر ہے جسے منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا۔ لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق آبادی کے دباؤ سے یہ شہر بھی نہیں بچا اور اس کی پلاننگ گڑبڑ ہو گئی ہے۔
یہاں کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ ضرور قائم ہے، مگر حالیہ عشروں میں شہر میں آبادی کا بڑا بوجھ سوسائٹیوں نے اٹھایا رکھا ہے، جن کا بنیادی کام لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں بلکہ منافع کمانا ہے۔
خود سی ڈی اے کے اعداد و شمار کے مطابق شہر میں سو کے قریب غیر قانونی سوسائٹیاں قائم ہیں لیکن ان کے خلاف کبھی سنجیدگی سے کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ کچی آبادیوں کا معاملہ الگ ہے اور شہر کے پوش سیکٹروں کے اندر کچی آبادیاں قائم ہیں اور چند قدموں کے فرق سے ایسا لگتا ہے جس اچانک آپ پہلی دنیا سے تیسری دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔
لوگ دیہات سے شہروں میں کیوں منتقل ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے سہولیات کی خاطر۔ لیکن تیزی سے شہری آبادی میں اضافے کی وجہ سے شہروں میں موجود سہولیات تیزی سے کم پڑتی جا رہی ہیں۔
اس مسئلے کا حل کہنے میں بڑا آسان ہے لیکن عمل درآمد میں شاید اتنا ہی مشکل کہ گاؤں دیہات ہی میں علاج معالجے اور تعلیم وغیرہ کی سہولتیں دے دی جائیں تاکہ لوگوں کو وہاں سے نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔