کشمیر کے کاری گر جدیدیت، کم ہوتی مانگ اور متبادل کی بڑھتی ترجیح کے دور میں چمڑے کی صنعت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کشمیر کی یہ صنعت، جو کبھی پھلتی پھولتی تجارت تھی، اب زوال کا شکار ہے۔ یہ شعبہ، جس نے تاریخی طور پر سیکڑوں ہنر مند کاری گروں کو ملازمت فراہم کی اب مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔
کشمیر میں چمڑے کے دست کاری کی ابتدا مغل دور سے ملتی ہے، جب اس خطے کو اعلیٰ معیار کی چمڑے کی مصنوعات کی وجہ سے شہرت ملی۔
جوتے، تھیلے اور بیلٹ سے لے کر روایتی اشیا جیسے گرگبی (کشمیری چمڑے کے جوتے) تک، ہر پروڈکٹ پیچیدہ کاری گری اور ثقافتی فخر کی عکاسی کرتی ہے۔
اس عمل میں مشقت سے بھرپور تکنیکیں شامل ہیں جو زبانی طور پر یا اپرنٹس شپ کے ذریعے منظور کی جاتی ہیں۔
کاری گر بڑی محنت کے ساتھ کچی کھالوں کو تیار کرتے ہیں جس میں قدرتی رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور چمڑے کو مختلف اشکال میں ڈھالا جاتا ہے۔
چمڑے کے ایک کاری گر غلام نبی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہماری مارکیٹ اس بار اچھی نہیں ہے جس سے تھوڑا بہت منافع کمایا جاتا ہے جس سے ہم اپنی روزی کماتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غلام نبی نے مزید بتایا کہ ’ہم مدراس سے چمڑا خرید رہے تھے لیکن انڈین حکومت نے وہ کارخانے بند کر دیے جن میں سے کچھ کام کر رہے ہیں لیکن زیادہ تر چمڑے کے کارخانے بند ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جموں و کشمیر میں چمڑے کے کام کے 12 ہزار کے قریب کاری گر موجود ہیں اس لیے وہ اس تھوڑے سے کام پر زندہ رہتے ہیں لیکن کام بہت کم ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کام دن بدن بگڑتا جا رہا ہے، مارکیٹ کی قیمت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، کام میں کمی سے ہماری روزی روٹی تباہ ہو رہی ہے۔‘
تمام مشکلات کے باوجود کشمیری کاری گروں کی محنت اور تخلیقی صلاحیت اس ورثے کو زندہ رکھنے کے ان کے عزم کو واضح کرتی ہے۔