افغانستان کے لیے امریکی امداد کے نگران ادارے سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) نے کہا ہے کہ طالبان کو افغانستان کے لیے مختص اربوں ڈالر کے فنڈز پر کوئی قانونی حق حاصل نہیں کیوں کہ انہیں افغان حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اور وہ پابندیوں کی زد میں ہیں۔
جمعے کو جاری ہونے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں سگار نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور کانگریس شاید اس بات پر غور کرنا چاہیں کہ افغانستان کے لیے مختص تقریباً چار ارب ڈالر کو دوبارہ امریکی حکومت کی تحویل اور کنٹرول میں لے لیا جائے۔
2022 میں امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے وہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے اثاثے، جو پہلے امریکہ میں منجمد کیے گئے، سوئٹزرلینڈ میں قائم افغان عوام کے فنڈ میں منتقل کر دیے تھے۔ انسپکٹر جنرل کے مطابق تب سے یہ فنڈ بڑھ کر تقریباً چار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ ابھی تک افغان عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی، لیکن اس فنڈ کا مقصد ان کی معیشت کو محفوظ اور مستحکم کرنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’طالبان ان فنڈز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ ان کا ان پر کوئی قانونی حق نہیں کیوں کہ انہیں امریکہ نے افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ وہ دہشت گردوں کی خصوصی فہرست میں شامل ہیں اور ان پر امریکی و اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد ہیں۔‘
یہ رپورٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے منجمد کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ آیا یہ امداد ان کی پالیسیوں کے مطابق ہے یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد اب تک تقریباً تین ارب 71 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں، جن میں سے زیادہ تر رقم اقوام متحدہ کے اداروں کو دی گئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی اضافی رقم اب بھی موجود ہے، جو ممکنہ طور پر تقسیم کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ امریکی انسانی امداد معاشی تباہی کے پیش نظر ’قحط کو روکنے میں مدد گار ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود طالبان امریکی شہریوں کو یرغمال بنانے، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق ختم کرنے، میڈیا پر سینسر شپ عائد کرنے، افغانستان کو ’دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ‘ اور سابق افغان حکومتی اہلکاروں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔
امریکہ اب بھی افغانستان کو امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن رپورٹ کے مطابق امداد کے بڑے حصے پر ٹیکس لگ جاتا ہے یا اسے کسی اور سمت میں موڑ دیا جاتا ہے۔
امریکی نگران ادارے میں آڈٹس اور انسپکشنز کے نائب انسپکٹر جنرل، کرس بورجیسن نے گذشتہ اگست میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’جتنی زیادہ نقد رقم ذریعے سے دور جاتی ہے، شفافیت اتنی ہی کم ہو جاتی ہے۔‘