اقوام متحدہ کو افغان طالبان کے نئے اخلاقی قانون پر 'تشویش'

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ اسے حال ہی میں طالبان حکام کی جانب سے منظور کیے گئے اخلاقی قانون پر ’تشویش‘ ہے۔

14 اگست، 2024 کو کابل کے احمد شاہ مسعود چوک کے قریب طالبان کے اقتدار کی تیسری سالگرہ کے جشن کے دوران افغان برقع پوش خواتین طالبان جنگجوؤں کی موجودگی میں ایک سڑک سے گزر رہی ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ اسے حال ہی میں طالبان حکام کی جانب سے منظور کیے گئے اخلاقی قانون پر ’تشویش‘ ہے، جس میں خاص طور پر خواتین پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

طالبان نے بدھ کو ’شریعت‘ کے تحت عمومی رویوں اور طرز زندگی پر پابندیوں کے بارے میں 35 شقوں کے ساتھ ایک قانون کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔

قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں زبانی خبردار کرنے سے لے کر انتباہ جاری کرنے، جرمانے اور مختلف عرصے تک قید کی سزائیں متعین کی گئی ہیں، جو وزارت امر بالمعروف، نہی عن المنکر کے تحت کام کرنے والی اخلاقی پولیس انجام دیں گی۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے اتوار کو اس نئے قانون کے بارے میں کہا: ’یہ افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک پریشان کن صورت حال ہے، جہاں اخلاقی حکام کو خلاف ورزیوں کی مبہم اور وسیع فہرست کی بنیاد پر کسی کو بھی دھمکانے اور حراست میں لینے کے صوابدیدی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد اور ایک خوف ناک انسانی بحران کے دوران افغان عوام اس سے کہیں بہتر کے اقدام کے مستحق ہیں، بجائے اس کے کہ انہیں نماز کے لیے دیر کرنے پر دھمکیاں دی جائیں یا جیل بھیج دیا جائے یا غیر محرم جنس مخالف کو دیکھنے یا کسی پیارے کی تصویر پاس رکھنے پر سزائیں دی جائیں۔‘

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے سخت  قوانین پہلے سے ہی غیر رسمی طور پر نافذ ہو چکے ہیں اور یہ واضح نہیں کہ آیا ان کا باضابطہ اطلاق کتنا سخت ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر پابندیوں کا خمیازہ خواتین کو اٹھانا پڑا ہے جس نے انہیں عوامی زندگی سے دور کر دیا ہے۔

روز اوتن بائیفا نے کہا کہ یہ قانون ’افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پہلے سے ہی ناقابل برداشت پابندیوں میں اضافہ کر دے گا یہاں تک کہ گھر سے باہر خواتین کی آواز کو بھی بظاہر اخلاقی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔‘

نئے قانون کے مطابق خواتین گھر سے باہر نکلیں تو اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپیں اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی آواز کسی غیر محرم مرد کے کان میں نہ پڑے۔

اقوام متحدہ نے قانون میں مذہبی اور صحافتی آزادیوں پر پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا کہ میڈیا کو ’شرعی قانون اور مذہب مخالف یا جانداروں کی تصویر کشی‘ والا مواد شائع نہیں کرنا چاہیے۔

تاہم اس نے کہا کہ اس قانون میں کچھ مثبت شقیں بھی شامل ہیں جن میں یتیموں کے ساتھ بدسلوکی اور لڑکوں سے ریپ پر پابندی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا