ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ میں کشمکش کے مضمرات

تحریک طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کی کشمکش دونوں کو کمزور کرنے کے علاوہ پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

26 نومبر 2008 کی اس تصویر میں پاکستان کے ضلع اورکزئی (سابق اورکزئی قبائلی ایجنسی) کے علاقے ماموزئی میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی اور پاکستانی طالبان کمانڈر لطیف محسود (درمیان) کو دیکھا جا سکتا ہے (اے مجید/ اے ایف پی)

اگست 2021 میں افغان طالبان کی افغانستان میں اقتدار کی واپسی جنوبی اور وسطی ایشیا میں (داعش خراسان کو چھوڑ کر) مختلف عسکریت پسند تحریکوں کے لیے ایک اہم پیش رفت تھی، جس نے ان میں فتح حاصل کرنے کا نیا جذبہ پیدا کیا۔ 

پاکستانی عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک خاص طور پر اس پیش رفت سے دوبارہ متحرک ہوئے اور انہوں نے ہائی پروفائل حملوں سے پاکستان میں خود کو منظم کیا۔

افغان طالبان کی غیر مرکزیت کے باوجود میدان جنگ کے نظم و ضبط نے پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کو اندرونی اختلافات کو کم کرنے، اتحاد قائم کرنے اور چھوٹے دھڑوں کو متحد پلیٹ فارم میں شامل کرنے کا راستہ دکھایا۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی محسود نے نہ صرف گروپ کے الگ ہونے والے دھڑوں کو دوبارہ متحد کیا بلکہ لشکر اسلام اور حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنایا۔

یہاں تک کہ نور ولی محسود نے انہیں ٹی ٹی پی میں ضم ہونے کی دعوت بھی دی۔ تاہم اس حوالے سے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ اس کے باوجود مشترکہ حملے اور آپریشنل سطح پر ان گروپوں کے درمیان تعاون کی خبریں آتی رہی ہیں۔

حافظ گل بہادر گروپ کے مقابلے میں ٹی ٹی پی ایک بڑا گروہ ہونے کے ناطے، مختلف عسکریت پسند دھڑوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں زیادہ کامیاب رہا ہے۔

مثال کے طور پر شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے حافظ گل بہادر گروپ کے اہم کمانڈر علیم خان اور علی داوڑ نے بالترتیب دسمبر 2020 اور جنوری 2025 میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی، جس سے ان کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ شروع ہو گیا۔

علی داوڑ کی شمولیت نے ٹی ٹی پی کی رسائی کو شمالی وزیرستان تک بڑھا دیا ہے جو کہ حافظ گل بہادر گروپ کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ داوڑ کی شمولیت کے بعد ٹی ٹی پی نے دیگر عسکریت پسند دھڑوں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو ’اسلامی امارات‘ میں تبدیل کرنے کے نام نہاد مقصد کے حصول کے لیے اپنی ’ایک گروپ، ایک امیر‘ کی حکمت عملی کے تحت اس میں شامل ہوں۔

عمومی طور پر مختلف اطراف سے خطرے میں رہنے کی وجہ سے اکثر عسکریت پسند تنظیمیں اپنی وفاداریاں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔

زیادہ تر چھوٹے گروپ بڑے گروپوں کی طرف راغب ہوتے ہیں کیونکہ وہ انہیں زیادہ فنڈز، مراعات اور طاقت پیش کر سکتے ہیں۔

حافظ گل بہادر گروپ اور لشکر اسلام نے اپنے اہم کمانڈروں اور ذیلی دھڑوں پر فتح حاصل کرنے کی ٹی ٹی پی کی صلاحیت سے خود کو محفوظ کرنے کے لیے ایک دو رخی حکمت عملی اپنائی ہے، جس پر بعد میں بات کی جائے گی۔   

جولائی 2020 کے بعد سے پاکستان کے مختلف حصوں میں کم و بیش 73 عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکے ہیں، جن میں 10 شورش زدہ صوبہ بلوچستان سے بھی ہیں۔

ان میں سے 16 دھڑے 2024 میں ٹی ٹی پی میں ضم ہوئے اور جنوری 2025 میں چار گروپ شامل ہوئے۔

2018 میں ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے کے بعد نور ولی محسود کی توجہ مختلف جہادی گروپوں کو نظم وضبط اور متحد کرنے پر مرکوز رہی ہے۔

نور ولی محسود نے ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کو نئے ضم شدہ اضلاع سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ 

ایک طرف ٹی ٹی پی نے 2024 میں جماعت الاحرار جیسے اپنے ہی دھڑوں کے ساتھ اختلافات کو حل کیا، جو اس کا سب سے مہلک دھڑا تھا۔

جماعت الاحرار کے رہنماؤں کی 2024  کے اوائل میں ٹی ٹی پی کے مرکزی عہدوں سے تنزلی کر دی گئی تھی، جب ان پر شبہ پیدا ہوا کہ نور ولی اس کے سربراہ عمر خالد خراسانی کے قتل میں ملوث تھے۔ اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے ٹی ٹی پی نے ایگزیکٹیو کونسل میں جے یو اے کی نمائندگی کو دو سے بڑھا کر تین کر دیا۔

دوسری طرف اس نے پاکستان کے مختلف حصوں سے عسکریت پسندوں کو اس کے پلیٹ فارم میں شامل ہونے پر آمادہ کیا اور ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کو وسعت دی۔ مثال کے طور پر پنجاب میں ٹی ٹی پی نے غازی فورس، لال مسجد کے مدرسے کے طلبہ پر مشتمل عسکریت پسند اور لشکر جھنگوی  کے ساتھ اتحاد کومضبوط کیا۔

جہاں غازی فورس کی شمالی پنجاب میں موجودگی ہے، وہیں لشکر جھنگوی کے سابق عسکریت پسندوں کا جنوبی پنجاب میں اثر رسوخ ہے۔ اسی طرح کراچی میں ٹی ٹی پی نے لشکر جھنگوی کے حافظ نعیم بخاری گروپ کی بیعت قبول کی، جو شہر میں شیعہ برادری کو نشانہ بنانے کے لیے بدنام ہے۔ اسی طرح بلوچستان سے شامل ہونے والے گروپ صرف پشتون علاقوں سے نہیں ہیں بلکہ بلوچ علاقوں سے بھی ہیں۔

حافظ گل بہادر گروپ نے شمالی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ حکمت عملی اپنائی ہے۔

سب سے پہلے انہوں نے لشکر اسلام کے ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط کیا ہے۔ دوسرا اس نے ٹی ٹی پی کی جائے پیدائش جنوبی وزیرستان سے ٹی ٹی پی کے کچھ اہم کمانڈروں کی حمایت حاصل کی۔  مثال کے طور پر علی داوڑ کی حمایت حاصل کرنے کے ٹی ٹی پی کے اعلان کے بعد، حافظ گل بہادر گروپ نے انکشاف کیا کہ اس کا جنوبی وزیرستان سے ایک اہم دھڑا حکیم اللہ محسود کاروان، جس نے نومبر 2024 میں باضابطہ طور پر اسکی بیعت کی تھی، میں شامل ہو گیا ہے۔

اس اعلان کے ساتھ ہی 19 جنوری کو حافظ گل بہادر گروپ نے علی داوڑ کی جگہ مفتی فاروق کو جیش عمری کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔

مزید برآں 22 جنوری کو حافظ گل بہادر گروپ نے افتخار عرف عمر گنڈاپور کی قیادت میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک عسکریت پسند دھڑے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

اسی طرح کمانڈر ابوذر بنگش کے ماتحت ضلع کوہاٹ کا ایک اور گروپ 14 جنوری کو حافظ گل بہادر گروپ میں ضم ہو گیام جب کہ شمالی وزیرستان کے ضلع سے کمانڈر منصور کی قیادت میں ایک عسکریت پسند گروپ دو جنوری کو حافظ گل بہادر گروپ میں ضم ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے ساتھ ہی حافظ گل بہادر گروپ نے 18 جنوری کو لشکر اسلام کے ساتھ ایک رسمی اتحاد کیا تاکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف ان کے حملوں کو مضبوط کیا جا سکے اور تحریک طالبان پاکستان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے۔

عام طور پر ملتے جلتے نظریاتی اہداف کے حامل عسکریت پسند گروہ، جغرافیائی طور پر متضاد تنازعات میں مشترکہ اہداف کے خلاف کام کرنے والے آپس میں ضم ہو جاتے ہیں یا اتحاد بناتے ہیں۔

ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والے تمام گروپس پاکستان میں طالبان طرز کی اسلامی امارت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ افغانستان-پاکستان کے سرحدی علاقے میں کام کرتے ہیں اور نظریاتی طور پر بھی ہم ہنگ ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان طاقت اور اثر و رسوخ کی کشمکش پاکستان کے داخلی سلامتی پر دو ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔

سب سے پہلے اگر یہ کشمکش پرتشدد جھڑپوں میں بدل جاتی ہے، تو یہ ان گروہوں کی طاقت کو کمزور کرے گی اور انہیں پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے دباؤ کا شکار بنا دے گی۔

مزید برآں ان گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑیں پاکستانی فوج کو ان کو کمزور کرنے کا مواقع فراہم کرے گی۔ تاہم ابھی تک ان گروپوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں یا پروپیگنڈہ جنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

دوسرا اس طرح کا مقابلہ بعض اوقات تشدد میں اضافہ کا باعث بھی بن سکتا ہے، جہاں مقابلہ کرنے والے عسکریت پسند گروہ دہشت گردانہ حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کر کے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کمزور ہو رہے ہیں۔

پاکستانی ریاست کو حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان طاقت کی اس جنگ کو باریک بینی سے دیکھنی چاہیے اور ان غیر ریاستی عناصر کو کمزور کرنے کے لیے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مصنف ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔  X: @baistresearcher.

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر