اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین نئے ججوں کے تبادلے کے خلاف دارالحکومت کے وکلا نے ان احکامات واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے آج ہڑتال اور وکلا کنونشن کا انعقاد کریں گے جبکہ لاہور کی وکلا تنظیموں نے پیر کو عدالتوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد بار کونسل، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اتوار کو مشترکہ اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ دارالحکومت کی وکلا برادری آج (پیر کو) آل پاکستان وکلا کنونشن کا انعقاد کر رہی ہے۔
جی الیون جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والے اجلاس میں ججوں کی تعیناتی کے خلاف آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
دوسری جانب لاہور میں وکلا تنظیموں لاہور بار ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ بار نے 26ویں آئینی ترمیم اور ججز کے تبادلوں کے خلاف پیر کو عدالتوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
صدر لاہور بار کے مطابق ماتحت عدالتوں میں بھی مکمل بائیکاٹ ہوگا جبکہ صدر ہائی کورٹ بار کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
وکلا برادری کی قرارداد اور احتجاج کی کال
وکلا تنظیموں نے ججوں کے تبادلے کی مذمت کرتے ہوئے ایک مشترکہ قرارداد منظور کی جس میں ان پانچ ججوں کے لکھے گئے خط کی حمایت کی گئی جنہوں نے دیگر صوبوں کے ججوں کی اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کی مخالفت کی تھی۔
قرارداد کے مطابق وکلا برادری غیر ضروری اور غیر منصفانہ تبادلوں اور دیگر صوبوں سے ججوں کی تعیناتی کی بھرپور مخالفت کرے گی۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ وہ عدلیہ کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن آئینی و قانونی اقدامات اٹھائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکلا نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر عدالت کے موجودہ سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے تاکہ تقرریاں شفاف اور میرٹ پر مبنی ہوں۔
وکلا نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 10 فروری کو سپریم کورٹ میں آٹھ ججوں کی تقرری کے لیے اجلاس بلانے پر بھی اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے موجودہ 16 رکنی بینچ کے ذریعے کی جائے۔
وکلا کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم پر فیصلہ کیے بغیر ججوں کی تقرری کا عمل عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتا ہے اور عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وکلا برادری نے آج (تین فروری کو) ملک گیر ہڑتال کرنے کا اعلان بھی کیا۔
وکلا نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں کی جانے والی ترامیم پر بھی میڈیا کے تحفظات کی تائید کی۔
ہفتے کو صدرِ مملکت نے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد سرفراز ڈوگر، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد آصف کو اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے کی منظوری دے دی تھی۔
ان تبادلوں کے نتیجے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں بڑی تبدیلیاں آئیں جن سے کئی جج متاثر ہوئے تاہم چیف جسٹس عامر فاروق کی پوزیشن برقرار رہی۔