سینیٹ: سروسز چیفس کی مدت 5 سال، سپریم کورٹ ججوں کی تعداد 34 کرنے کے بل منظور

پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے پیر کو مسلح افواج کے سربراہان کی مدت 5 سال کرنے اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے کے بل منظور کر لیے۔

29 اپریل 2014 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں پاکستان کی پارلیمان کی عمارت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چار نومبر کی رات پارلیمنٹ نے ملک کے سروسز چیفس کی مدت ملازمت کے بڑھانے کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کے قانون منظور کیے (اے ایف پی)

قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی پیر کی رات تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے سے متعلق ترمیمی بل منظور کر لیے ہیں۔

سینیٹ کے پریذائیڈنگ افسر سینیٹر عرفان صدیقی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کرنے کے حوالے سے بھی ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

بلوں کے پیش اور منظور کیے جانے کے دوران حزب اختلاف نے ایوان میں شور شرابا کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑیں۔

قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا بل پیش کیا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی قومی اسمبلی سے منظور شدہ صورت میں ایوان بالا میں پیش کیا گیا۔

اس سے قبل پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کرنے کے قوانین کثرت رائے سے منظور کیے تھے۔

سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 1952 پیش کیا تھا، جب کہ پاکستان نیوی ترمیمی بل اور تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کے بل بھی ایوان میں پیش کیے گئے تھے۔ 

حکومت قومی اسمبلی اجلاس میں تمام بلز ضمنی ایجنڈے کے ذریعے لائی تھی۔

بل کے تحت پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔

اس کے علاوہ ایوان نے پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی ترمیمی بل کی بھی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔

سپیکر نے بلز کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس کل (منگل کی) صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ 

پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے پیر کو سپریم کورٹ اف پاکستان میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے کا بل بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔

فاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ججز کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجرترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیے۔

ترمیمی بل کی شق وار منظوری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کی کارروائی کل صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

ترمیمی بلز کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آمنے سامنے آگئے، دونوں جانب سے ارکان نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑلیے، حکومتی اراکین نے وزیراعظم کی نشست کو گھیرے میں لے لیا۔

اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا،اپوزیشن اراکین کے ایوان میں ’نونو‘ کے نعرے لگائے اور ترمیمی بلز کی کاپیاں پھاڑدیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے وقفہ سوالات معطل کرنےکی تحریک ایوان میں پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت بنائی ہے اس کے لیے بھی ججز چاہیے تھے، ججز کی تعداد بڑھانے کا مقصد زیرالتوا مقدمات کی تعداد کم کرنا ہے۔

وزیرقانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل ایوان میں پیش کردیا۔

جماعت اسلامی کا مطالبہ

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت فل کورٹ بینچ کے ذریعے کرنے اور کارروائی براہ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جماعت اسلامی کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا موجودہ قومی اسمبلی کو 1973کے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف سے پوچھا جانا چاہیے کہ 40 سال میں قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کا بیڑا غرق کس نے کیا جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے تین سالہ دور میں پی آئی اے چلانے کے لیے کیا کچھ کیا؟

حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو ایک سال میں 2000 ارب روپے ادا کیے گئے، جب کہ ان میں سے 52 فیصد کمپنیاں حکومت کی ہیں۔

’ایسے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ انکم ٹیکس سے مستشنیٰ کیوں ہیں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان