ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ (واٹر فرنٹ پارک) بنانے کے عجیب و غریب خیال پر منطقی ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ حیران کن لیکن غیر متوقع نہیں۔
ایک امریکی صدر کی جانب سے پوری آبادی کو نسلی طور پر ختم کرنے یا یوں کہیے کہ جبری طور پر نکالنے کی حمایت کرنا شرمناک ہے۔ پھر اس کو کسی بیچ ریزورٹ سے جوڑنا، جہاں یقیناً ایک بیہودہ ٹرمپ ٹاور بھی ہو گا، ان کے خواب کو اور بھی بدصورت بناتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ لبنان کے پرانے خوش حال دنوں کی طرح غزہ میں ترقی کے امکانات تھے لیکن جنگ، شدت پسندی، اسرائیل اور حماس کی بدنیتی پر مبنی حکمرانی نے اس کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے اسے ممکن نہیں ہونے دیا۔
بےگھر، در بدر، متزلزل، غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنے والے فلسطینی جن کے گھروں کو بم باری کا نشانہ بنایا گیا، انہیں خوف ہے کہ ایک اور آفت ان پر ٹوٹنے والی ہے۔
یہ ایک ایسی چیز ہے جو ٹرمپ کے ذہن میں کافی عرصے سے ہے، آخرکار وہ ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ہیں (شاید سب سے بڑے، جیسا کہ وہ خود فخر سے کہتے ہیں)۔
نتن یاہو کی امریکہ یاترا سے چند روز پہلے حکم نامے جاری کرنے کے ایک اجلاس میں ایک رپورٹر نے سوال کیا، جن کے جواب میں ٹرمپ نے غزہ کے جغرافیہ کی اہمیت کا ذکر کیا۔
ایک سال پہلے ان کے داماد جیرڈ کشنر نے مشرق وسطیٰ سے واپس آ کر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ (ایک ویڈیو جو دوبارہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اس میں کشنر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ غزہ کی واٹر فرنٹ پراپرٹی بہت قیمتی ہو سکتی ہے۔۔۔ لیکن میں اسرائیل کے نقطہ نظر سے سوچوں گا کہ لوگوں کو نکال کر علاقے کو صاف کر دینا چاہیے۔)
ٹرمپ ٹاور نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں ایک خوبصورت آرٹ ڈیکو ڈپارٹمنٹ سٹور کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا، جسے ٹرمپ بچپن سے خریدنا چاہتے تھے اور انہوں نے کبھی اس خواہش کو نہیں چھپایا کہ وہ اسے گرا کر اپنے شان و شوکت کا نشان بنائیں۔
کچھ لوگ انہیں سوشیوپیتھ (سماج دشمن) کہتے ہیں لیکن وہ یقینی طور پر پُرعزم انسان ہیں۔
تاہم ان کا غزہ کے حوالے سے منصوبہ پورا نہیں ہو گا۔ یہ ان کے لیے بھی بہت زیادہ ہے۔ انسانیت کے خلاف جرم کرنے والوں کے علاوہ کوئی اور اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ امریکہ میں ٹرمپ کے کٹر حمایتی بھی سنجیدگی سے نہیں چاہیں گے کہ امریکی فوجی غزہ پر قابض ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صومالیہ، عراق، افغانستان اور دیگر ناکام غیر ملکی جنگوں کے تجربات نے یقیناً انہیں ایسے ناکام اور خونریز منصوبے سے دور کر دیا ہے۔
اس منصوبے میں اسرائیلیوں کے لیے بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، جو اس وقت یہاں قابض طاقت ہیں اور اس خطے پر اس حد تک کنٹرول رکھتے ہیں جتنا وہ رکھ سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ بن یامین نتن یاہو نے بھی اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں تھوڑی حیرانی سے ٹرمپ کے منصوبے کی تفصیل سنی، جیسے وہ دنیا کے بہترین ویکیشن ریزورٹ (تفریحی مقام) کا ماڈل پیش کر رہے ہوں اور صحافیوں کو خان یونس میں ایک ٹرمپ ویکیشن میں 10 دن کے مکمل (تفریحی) پیکج کی دعوت دے رہے ہوں۔
مصر اور اردن نے (جو پہلے ہی دنیا کے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں) 10 لاکھ مزید فلسطینیوں کو اپنے ہاں بسانے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے اور سعودی عرب ان حالات میں اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدے (امن معاہدے) پر دستخط نہیں کرے گا۔
اگر ٹرمپ کے غزہ میں ایک تفریحی منصوبے کی منظوری دی جاتی ہے تو اس سے امریکہ مخالف جذبات پیدا ہو سکتے ہیں اور وہ امریکی مفادات کے حق میں کم مدد گار ہو سکتے ہیں۔
امید کے ساتھ اور ٹرمپ کے بارے میں ہمارے طویل تجربے کے مطابق وہ شاید صرف یہ خیال پیش کر رہے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ اس پر کیا ردعمل آتا ہے۔
ان کا غزہ یا مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی خاص منصوبہ نہیں ہے سوائے جنگوں کو ختم کرنے، ایران کو روکنے اور اس امید کے کہ ان کا ابراہیم معاہدہ کسی طرح کشیدگی کم کر سکے اور جنگجوؤں (حماس کو یہ بات پہلے سے ہی سمجھ میں آ چکی تھی اور اس نے سات اکتوبر کو اس کے مطابق کارروائی کی) کو الگ کر سکے۔
لیکن یہ ان کا طریقہ نہیں ہے۔ وہ افراتفری پیدا کرتے ہیں، خلل ڈالتے ہیں اور جو مواقع ملتے ہیں انہیں اپنے حق میں استعمال کر لیتے ہیں۔
آیت اللہ (ایرانی سپریم رہنما) سمیت مختلف فریقین کو ٹرمپ کے آنے کے بعد اپنے آپشنز پر نظرثانی کرنے کی فوری ضرورت ہے، جیسا کہ ٹرمپ کے دوست نتن یاہو کے مطابق انہوں نے ’روایتی سوچ سے ہٹ کر نئے انداز سے سوچنے کا طریقہ‘ اپنایا تھا۔
اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کا یہ غیر معمولی اور بے حد ظالمانہ منصوبہ قطر میں جاری امن مذاکرات میں کچھ تیزی لا سکتا ہے اور پورے خطے کو مذاکرات شروع کرنے اور فلسطین کے مستقبل کے لیے ایک زیادہ پائیدار حل تیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
شاید، ایک امید کے طور پر، ایران بھی امریکہ سے بات کرنے پر غور کرے گا، جیسے کہ کم جانگ اُن نے اس وقت کیا، جب ٹرمپ شمالی کوریا گئے تھے۔
اگرچہ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی وہ دنیا کا بہترین ریزورٹ بنانے میں لیں گے لیکن پھر بھی اس انعام کا خیال ان کے لیے ایک دلکش متبادل پیش کر سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent