ایم ایم اے فائٹر انیتا کریم، جنہوں نے رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور بازو بھی

انیتا کریم کو آٹھ سال قبل رِنگ میں اترنے کی اجازت ملی اور وہ جلد ہی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون مکسڈ مارشل آرٹس فائٹر بن گئیں۔

11 دسمبر 2024 کو لی گئی اس تصویر میں مکسڈ مارشل آرٹس فائٹر انیتا کریم اسلام آباد کے ایک کلب میں تربیتی سیشن میں حصہ لے رہی ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے شمالی پہاڑی خطے میں پروان چڑھنے والی انیتا کریم نے فائٹنگ کی تربیت اپنے تین ایسے بڑے بھائیوں کے ساتھ پائی، جو کسی نرمی کے قائل نہ تھے۔

اس سخت تجربے نے انہیں مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) میں کیریئر بنانے کے لیے تیار کیا، جو تھائی کک باکسنگ، جاپانی جوڈو اور ریسلنگ کا امتزاج ہے اور آج وہ ملک کی نمایاں ترین خاتون فائٹر بن چکی ہیں۔

انیتا کریم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں اس گاؤں سے آئی ہوں جہاں خواتین کی حواصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن جب میں نے ایم ایم اے شروع کیا، تو وہاں کے لوگوں کو اس کھیل کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں تھی۔‘

28 سالہ انیتا نے کہا: ’وہ کہتے تھے کہ یہ صرف مردوں کا کھیل ہے اور کوئی خاتون یہ نہیں کر سکتی۔‘

آٹھ سال قبل انہیں رِنگ میں اترنے کی اجازت ملی اور وہ جلد ہی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ایم ایم اے فائٹر بن گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایشیا کے سب سے بڑے مقابلے’ون چیمپیئن شپ‘ میں جگہ بنائی۔

ان کے بقول: ’اب خواتین مخالف تبصرے اور تنقید رک چکی ہے۔‘

پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینا غیر معمولی ہے، جہاں اکثر خاندان ہی ان پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔

لیکن انیتا کے آبائی علاقے گلگت بلتستان میں جہاں خواتین کے لباس اور طرزِ زندگی سے متعلق ضابطے نسبتاً نرم ہیں، خواتین کے کھیل پروان چڑھ رہے ہیں۔

اکتوبر میں اسی علاقے کی دو بہنوں، ملیحہ اور منیشا علی نے انڈونیشیا میں منعقدہ تائیکوانڈو مقابلے میں سونے اور کانسی کے تمغے جیتے۔

’آرم کلیکٹر‘

انیتا کے بھائی علومی کریم، جو کبھی ان کے مکے کھاتے تھے، اب انیتا کے کوچ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بہن کو سب سے پہلے حمایت گھر سے ہی ملی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

33 سالہ علومی نے کہا: ’جب انیتا نے عزم اور لگن دکھائی، تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ کچھ کر گزرے گی۔ ہم جانتے تھے کہ وہ اس دباؤ کو برداشت کر سکتی ہے اور ہمیں کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ کسی بھی لڑکے کے ساتھ ٹریننگ کرے۔‘

رِنگ سے باہر غیر متوقع طور پر شرمیلی نظر آنے والی انیتا، پاکستانی خواتین ایم ایم اے فائٹرز کے ایک ابھرتے ہوئے گروپ کی قیادت کر رہی ہیں، جن میں سے پانچ کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔

خود بھی ایم ایم اے میں حصہ لینے والے علومی کریم نے مزید کہا: ’وہ شرمیلی ہیں لیکن جیسے ہی رِنگ میں داخل ہوتی ہیں، بالکل بدل جاتی ہیں۔‘

انیتا کی خاص مہارت آرم لاک ہے، یہ ایک اذیت ناک گرفت ہے، جو پورے جسم کی طاقت استعمال کر کے حریف کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہار مان لے ورنہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں یا جوڑ خراب ہو سکتے ہیں۔

2022  میں انہیں ایک پوڈیم پر کھڑا دیکھا گیا، جہاں ان کے دو مخالفین اپنے بازوؤں پر پٹیاں باندھے کھڑے تھے، یہ کارکردگی انہیں ’آرم کلیکٹر‘ کا خطاب دلانے کا سبب بنی۔

انیتا نے اس واقعے کے بارے میں بتایا: ’وہ ہار مان کر فائٹ روک سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، تو میں نے مقابلہ جاری رکھا۔‘

’یہ کھیل کا حصہ ہے‘

اپنے آبائی شہر میں ہی انیتا نے ابتدائی طور پر تائیکوانڈو اور جیو جِتسو کی تربیت لی، پھر اسلام آباد کے ایک ہائی سکول میں ایم ایم اے کے بارے میں جانا اور اس میں حصہ لیا، جس پر ان کے علاقے میں کافی تنقید کی گئی۔

ان کے بقول: ’میرے قریبی لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے مجھے تنقید کا نشانہ بنایا لیکن یہ کھیل کا حصہ ہے۔ اب وہ جان گئے ہیں کہ یہ کیسے کھیلا جاتا ہے۔‘

اب ان کے شہر سے صرف فخر کے اظہار کے پیغامات آ رہے ہیں۔

علاقے کے سپورٹس چیف شاہ محمد نے کہا: ’جس طرح انہوں نے گلگت بلتستان اور پورے پاکستان کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ہے، یہ ایک مثال ہے۔‘

2018 میں اپنے پروفیشنل ڈیبیو میں شکست کے بعد انہوں نے تھائی لینڈ میں ایک ایم ایم اے اکیڈمی میں تربیت حاصل کی۔

اب وہ مقابلوں میں جیتنے والے انعامات، حکومت سے ملنے والے تھوڑے سے مالی تعاون اور اسلام آباد کے اپنے جم میں کوچنگ سے گزر بسر کر رہی ہیں۔

جب وہ کسی مقابلے کے بعد وطن واپس آتی ہیں تو ایئرپورٹ پر عوام ان کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ خواتین بھی پروفیشنل بننا چاہتی ہی، ایک ایسے ملک میں جہاں اقوام متحدہ کے مطابق صرف پانچ میں سے ایک خاتون کو روزگار حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین