منیزہ باختری کا مشن یہ ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ طالبان کی مخالفت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے وطن میں دوبارہ ’جنگ چاہتی ہیں۔‘ وہ افغانستان کی جانب سے دنیا میں خدمات انجام دینے والی آخری خاتون سفیر ہیں، اور وہ ان کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں جن کا مقصد اس اسلام پسند گروہ کو وہ بین الاقوامی شناخت دینے سے روکنا ہے جس کی اسے شدید خواہش ہے۔
اقوام متحدہ اب بھی کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں جو اگست 2021 میں نیٹو افواج کے انخلا اور آخری جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد سے اقتدار میں ہے۔ انفرادی طور پر ممالک بھی اقوام متحدہ کی قیادت کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن اب کئی ملکوں میں افغان سفارتی مشن ایسے سفیروں کی قیادت میں کام کر رہے ہیں جنہیں طالبان نے نامزد کیا۔ یہ قدم اکثر نظریاتی وابستگی کی بجائے عملی ضرورت کے تحت اٹھایا گیا۔
آسٹریا، جہاں باختری افغان سفارت خانے کی سربراہی کر رہی ہیں، نے اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہنے کا فیصلہ کیا اور وہیں سے باختری یورپ بھر میں یہ پیغام پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایسی طالبان حکومت کو تسلیم کرنا یا اس سے معاملات طے کرنا ایک سنگین غلطی ہو گی، جو انتہاپسندی کو فروغ دیتی ہے اور خواتین کو بنیادی ترین حقوق سے بھی محروم رکھتی ہے۔
ان کی کہانی اب توجہ حاصل کرنے لگی ہے اور اب یہ 80 منٹ کی دستاویزی فلم دا لاسٹ ایمبیسیڈر کا موضوع بن چکی ہے۔ اس فلم کو گذشتہ ماہ کوپن ہیگن انٹرنیشنل ڈاکیومنٹری فلم فیسٹیول میں کھل کر داد دی گئی۔
یہ فلم ان کے اس سفر کو بیان کرتی ہے جب انہیں سابق اشرف غنی حکومت نے آسٹریا میں سفیر مقرر کیا اور آج وہ ایک ایسے مشن کی سربراہ ہیں جسے کابل کی موجودہ حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔ فلم میں یہ بھی دکھایا گیا کہ وہ کس طرح ان افغان لڑکیوں کے لیے خفیہ کلاسوں کا اہتمام کرتی ہیں جنہیں طالبان نے سکول جانے سے روک رکھا ہے۔
سال کے آغاز میں میڈرڈ میں افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں باختری نے وضاحت کی کہ ان کے لیے مزاحمت کا مطلب کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’طالبان کی مخالفت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں افغانستان میں جنگ چاہتی ہوں۔‘
’دنیا میں بہت سے سیاست دان ہمیں اسی نظر سے دیکھتے ہیں، یقین کریں۔ جب وہ ’مزاحمت‘ کا لفظ سنتے ہیں تو فوراً کہتے ہیں کہ آپ جنگجو ہیں اور اپنے ملک میں ایک اور جنگ چاہتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کیوں کہ مزاحمت کا مطلب دوبارہ ہتھیار اٹھانا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا۔‘
طالبان نے گذشتہ حکومت سے وابستہ تنقیدی آوازوں کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک کی طرح کابل پر قبضے کے فوراً بعد انہوں نے باختری کو برطرف کرنے کا حکم جاری کیا۔ لیکن آسٹریا اب بھی ان کی سفارتی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے جس کی بدولت وہ وہاں افغان شہریوں کے مفادات کی نمائندگی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں ان سے، طالبان کے لوگوں سے احکامات نہیں لے رہی۔
’میری حیثیت کا تعلق طالبان کی منظوری سے نہیں۔ وہ جو کچھ بھی کہیں، ان کا جو بھی قانون ہو، وہ اُن کا مسئلہ ہے، میرا نہیں۔ مجھے ان کی باتیں ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ انہیں نہ افغانستان کے اندر تسلیم کیا گیا، نہ باہر۔ ان کے پاس تو اپنے ہی عوام کے درمیان بھی کوئی جواز یا قانونی حیثیت نہیں۔‘
گذشتہ چار سال میں طالبان کے نمائندوں نے دنیا بھر میں ایک کے بعد ایک سفارتی مشنز پر قبضہ جما لیا۔ گذشتہ مہینے ناروے نے بھی طالبان کے نامزد کردہ نمائندے کو قبول کرلیا، جو یورپ کا تازہ ترین ملک ہے جو اس راہ پر چل نکلا۔
انڈیا نے مزاحمت کی کوشش کی، مگر سابق افغان سفیر کی مدت مکمل ہوتے ہی 2023 کے آخر میں خاموشی سے طالبان کے پسندیدہ اہلکار کو تسلیم کرلیا۔ برطانوی حکومت کی درخواست پر برطانیہ میں افغان سفارت خانہ ستمبر 2024 میں بند کردیا گیا۔ قبل ازیں طالبان نے وہاں موجود تمام عملے کو برطرف کردیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ناگزیر ہے کہ غیر ملکی حکومتیں بالآخر طالبان کو افغانستان کے عملی حکمران کے طور پر تسلیم کر کے ان سے معاملات کریں گی، تو باختری نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا: ’چلیے اس حقیقت کو بھول جائیں کہ طالبان ایک دہشت گرد گروہ رہے ہیں، اور اسے ایک طرف رکھ دیں، کیوں کہ اس وقت بین الاقوامی برادری خود چاہتی ہے کہ ہر کوئی یہ بات بھول جائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سوال اٹھا کہ ’آج اُن کی پالیسیوں کا کیا حال ہے؟ 20 سال پہلے کی بات نہیں۔ آئیے صرف گذشتہ چار سال پر توجہ دیں۔ خودکش حملے اور مظالم بھول جائیں۔ طالبان نے افغان عوام کی خوشحالی اور فلاح کے لیے کیا کیا؟ روزگار؟ بنیادی انسانی حقوق کا احترام؟ ایک لمحے کے لیے لڑکیوں کی تعلیم کو بھی بھول جائیں، تو لڑکوں کی تعلیم کا کیا حال ہے؟ ہمارے لڑکے کیا پڑھ رہے ہیں؟‘
’ان کے پاس نہ تو درست تعلیمی نظام ہے، نہ ہی تربیت یافتہ اساتذہ۔ طالبان نے نصاب میں بہت پہلے تبدیلیاں کر دیں اور اب وہ لاکھوں افغان لڑکوں کو پیچھے لے جانے والے مضامین پڑھا رہے ہیں، جنہیں پہلے افغان خاتون اساتذہ پڑھاتی تھیں۔ ہاں، میں ان لوگوں سے احکامات نہیں لوں گی جنہیں آج تک کسی ایک بھی اتھارٹی نے تسلیم نہیں کیا۔‘
اگرچہ باختری واحد افغان خاتون سفیر ہیں جو آج بھی اپنے منصب پر قائم ہیں، لیکن وہ اکیلی نہیں جو پرانے افغان جمہوری نظام کے مفادات کے لیے سفارتی ذرائع سے کام لے رہی ہیں۔ میڈرڈ میں ہونے والے ہرات سکیورٹی ڈائیلاگ کے دوران دی انڈپینڈنٹ کی ملاقات نگارہ میر داد سے بھی ہوئی، جو پولینڈ میں اب بند افغان سفارت خانے میں نائب مشن سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔
گذشتہ سال ستمبر میں نگارہ میر داد اپنی 11 سالہ بیٹی کے ساتھ ہسپتال میں تھیں، جنہیں ذیابیطس ہے اور انہیں انسولین کی ضرورت تھی، جب انہیں سفیر نے اطلاع دی کہ وارسا میں ان کا مشن بند کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ چوں کہ کابل سے کوئی مالی مدد نہیں آ رہی تھی، اس لیے انہوں نے کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ میں سفارتی مشنز سے اپیل کی کہ پولینڈ کے شدید موسم میں گیس کے اخراجات کے لیے ان کی مدد کی جائے۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ جب انہوں نے 2021 میں ٹی وی پر طالبان کے کابل پر قابض ہونے کی کوریج دیکھی تو ان پر کیا گزری۔ ’میں کئی دن تک کچھ کھا نہیں سکی اور میری آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔‘ وہ کہتی ہیں۔
نگارہ میر داد اور باختری دونوں کو معلوم تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان خواتین کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہی دہشت، وہی ظلم، جو وہ اپنی 20 سال سے زیادہ عمر کے دور میں خود بھگت چکی تھیں۔
1996 میں جب وہ صرف 12 سال کی تھیں، نگارہ میر داد یاد کرتی ہیں کہ طالبان جنگجو وادی پنج شیر میں داخل ہوئے تو ان کے محلے نے لڑائی کی تیاری شروع کر دی۔
ان کے بقول: ’لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ لڑکیوں اور عورتوں کو مار کر دریاؤں میں پھینک دینا چاہیے تاکہ طالبان انہیں چھو نہ سکیں، اور افغان مردوں کو چاہیے کہ وہ جا کر طالبان سے لڑیں۔ اور تب سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اگر طالبان قریب آئے، تو میں اور میرے خاندان کی عورتیں مار دی جائیں گی اور دریا میں پھینک دی جائیں گی۔‘
باختری کی طرح نگارہ میرداد کو بھی گذشتہ برسوں میں طالبان کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں: ’مجھے طالبان کے حامیوں کی طرف سے کئی پیغامات موصول ہوئے، حتیٰ کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو وزارت داخلہ کے ترجمان نے بھی مجھے پیغام بھیجا جنہوں نے کہا کہ ’ٹھیک ہے آپ انتظار کریں۔ جب ہم یورپ میں تمام سفارت خانے لے لیں گے، تب آپ سے نمٹیں گے۔‘
باختری کہتی ہیں کہ طالبان جیسی قوتیں ان جیسی خواتین کو ’اپنے کنٹرول کے لیے خطرہ‘ سمجھتی ہیں۔ ’وہ عورتوں سے نفرت کرتے ہیں۔ (انہیں) یہ خوف ہے کہ تعلیم یافتہ اور بااختیار خواتین ان کے سامنے کھڑی ہو جائیں گی اور ان ظالمانہ طریقوں کو چیلنج کریں گی جو انہوں نے بنائے۔ جب خواتین کے پاس تعلیم ہو، اختیار ہو اور وہ معاشرے میں فعال ہوں، تو وہ سوال اٹھائیں گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ خواتین اپنے ملک سے، یا اس خیال سے کہ حالات بدل سکتے ہیں، دستبردار ہونے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ ’ہم اُمید کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہی ایک بات ہے جو افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔‘
© The Independent