اسلام آباد کا پانچ دہائی پرانا سیوریج نظام شہریوں کے لیے وبال

اسلام آباد میں گندے پانی کی نکاس کا نظام بوسیدہ اور ناکارہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے اکثر سیکٹرز سے گزرنے والے برساتی نالے گندگی کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔

اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون کے ایک حصے سے برساتی پانی کی نکاسی کے لیے بنایا گیا نالہ گزرتا ہے، جس میں گذشتہ ایک عشرے کے دوران مکانات کے بند گٹر ڈال دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں ہر وقت تعفن رہتا ہے۔

جی الیون کے رہائشی محمد اشرف کے مطابق سب سیکٹرز ون اور ٹو میں اکثر سیوریج لائنز بند پڑی ہیں اور مکانات کا گندا پانی نالے میں گرایا جا رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بلکہ لوگ گھروں کا کوڑا کرکٹ بھی اسی نالے میں پھینک رہے ہیں اور اب یہ گندگی اور بدبودار پانی ہمارے ہر گھر تک پہنچ رہا ہے۔‘

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے چند روز قبل پارلیمان میں اعتراف کیا تھا کہ ’اسلام آباد میں سیوریج کا زیادہ تر نظام 40 سے 50 سال پرانا ہے، جو اپنی مدت پوری کر چکا ہے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے مطابق: ’جولائی 2022 میں ایک سروے کے بعد نئے سیوریج نیٹ ورک کے لیے 37 کروڑ روپے کے منصوبے کی منظوری کا انتظار ہے۔‘

اسلام آباد کو ایک جدید اور ماڈرن شہر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا، لیکن سیوریج کے موجودہ حالات نے شہریوں کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔ 

ایسی صورت حال صرف جی الیون تک محدود نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت کے کئی سیکٹرز میں گندے پانی کی بدبو اور اکثر مقامات پر ادھر ادھر بکھرا کوڑا کرکٹ معمول کی بات بن گئی ہیں۔

ایسا اسلام آباد میں نکاسی آب کے ناکارہ اور بوسیدہ نظام کے باعث ہو رہا ہے، جس نے رہائشیوں کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔

پاکستان انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے مطابق: ’اسلام آباد میں تقریباً 26 ندیاں اور نالے ہیں، جو اب کچرے اور آلودگی کا مرکز بن چکے ہیں۔ گھریلو کچرا اور سیوریج کے اخراج کی وجہ سے یہ نالے نہ صرف مچھروں کی افزائش گاہ بن چکے ہیں بلکہ صحت عامہ کے لیے بھی سنگین خطرہ بن گئے ہیں۔‘

شہر اقتدار کی بڑی شاہراہوں کی خوب تزئین و آرائش کی گئی ہے اور وقتاً فوقتاً ان کو مزید بہتر بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن رہائشی علاقوں کی تنگ گلیوں اور چھوٹی سڑکوں کوڑے دانوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے گھروں کی گندگی ہر طرف بکھری نظر آتی ہے۔

سیوریج کے بوسیدہ نظام کے باعث اکثر نالوں اور ان کے ارد گرد گندہ پانی کھڑا نظر آتا ہے، جس میں مچھروں کی افزائش نسل کا پورا انتظام موجود ہے۔

کھڑی پانی کی تعفن بے بھی اکثر سیکٹرز میں شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

اسلام آباد کے رہائشی ثنا اللہ کے مطابق اکثر کچرا گلی میں پڑا رہتا ہے اسے اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’کئی شکایات درج کرانے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے، جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ نظام کی بحالی کے لیے فنڈز کی منظوری کا انتظار ہے۔     

اسلام آباد کے رہائشی ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، "مسئلہ یہ ہے کہ ’یہاں بہت زیادہ کچرا جمع ہو جاتا ہے اور سی ڈی اے کے دفتر یا سٹیزن پورٹل پر شکایات درج کرانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔‘

انہوں نے بتایا کیا کہ ان کے سیکٹر کے قریب ہفتے میں دو مرتبہ (پیر اور جمعرات کو) غیر قانونی مذبح خانہ میں لگایا جاتا ہے اور جانوروں کا خون نالوں میں بہا دیا جاتا ہے۔

’اب یہ انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے لیکن انتظامیہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔‘

محمد اشرف کا کہنا تھا کہ انہوں نے جی الیون میں گھر اس امیر پر خریدا تھا کہ ایک کھلی جگہ اور صاف ستھرے ماحول میں رہنے کا موقع ملے گا۔ ’لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ سی ڈی اے والے یہاں سارا گند پھینکیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومتی موقف

شہریوں کا مطالبہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں سیوریج سسٹم کو فوری طور پر اپ گریڈ کیا جائے، غیر قانونی ذبح خانے بند کیے جائیں اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مؤثر نظام بنایا جائے۔

ای پی اے کے مطابق: ’یہ مسئلہ صرف بدبو کا نہیں، بلکہ صحت اور معیارِ زندگی کا بھی ہے۔‘

ایک شہری کا کہنا تھا کہ ’اگر انتظامیہ نے فوری ایکشن نہ لیا تو اسلام آباد کو ماحولیاتی اور صحت کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

محمد اشرف طنزاً کہا کہ ’جو لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ اسلام آباد کو جنت بنائیں گےمیں ان سے کہتا ہوں کہ  خدارا اس شہر کو اسلام آباد ہی رہنے دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان