افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رات ڈھلتے ہی ننھی ننھی روشنیاں اندھیرے اور سردیوں کی آلودگی کی موٹی چادر کو چیرتی نظر آتی ہیں۔
لیکن کچھ گلی کے کونوں پر، جگمگاتے ہوئے عظیم الشان شادی ہال اندھیرے میں ابھرتے ہیں، جو افغان دارالحکومت میں نایاب شاہانہ طرزِ زندگی کی جھلک پیش کرتے ہیں۔
60 لاکھ سے زائد آبادی والا یہ شہر اکثر بجلی کی مستقل بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، جس کا حل صرف امیر ترین لوگ، مہنگے جنریٹر یا سولر پینلز کے ذریعے نکال سکتے ہیں۔
چند ایک خوانچہ فروشوں کے سوا، سڑکیں سنسان پڑی ہیں، جو دن کے وقت کے ہنگامہ خیز رش کے بالکل برعکس منظر پیش کرتی ہیں۔
لوگ سردی سے بچنے اور رات میں تفریحی سرگرمیوں کے فقدان کے باعث گھروں میں دبک کر بیٹھے رہتے ہیں۔ جب سے طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالا اور سخت گیر قوانین نافذ کیے، دارالحکومت پر اداسی کا سایہ چھا گیا ہے۔
ریستورانوں سے موسیقی کی آوازیں نہیں آتیں کیونکہ یہ ممنوع ہے، خواتین کے لیے پارکوں میں جانے پر پابندی ہے، اور دیواروں پر بنی رنگین امن کے حق میں گرافیٹی کو جہاد کے نعرے لگا کر مٹا دیا گیا ہے۔
شہر کے وسط میں بکھرے شادی ہال ہی وہ واحد جگہیں ہیں جو روشن نظر آتی ہیں اور کسی حد تک طالبان کی سختیوں سے بچی ہوئی ہیں، کیونکہ افغان ثقافت میں شادی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
ان اونچی چھتوں والے ہالوں میں مرد و خواتین کے لیے علیحدہ انتظام ہوتا ہے، اور موسیقی صرف خواتین کے حصے میں سننے کی اجازت ہوتی ہے۔
امپیریل کانٹینینٹل، جو کہ ایک سفید اور سنہری محل نما ہال جو لاس ویگس کے کسی کیسینو جیسی چمک دمک سے بھرپور ہے، کے ڈائریکٹر محمد واصل قومی نے کہا: ’افغانستان میں شادی کی تقریب لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے سب سے اہم موقع ہوتا ہے۔ یہ زندگی میں ایک بار ہونے والا ’ایونٹ ہوتا ہے، یہاں زیادہ طلاقیں نہیں ہوتیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’یہ نئی زندگی کی ابتدا ہے، اس لیے روشنی ہر جگہ ہونی چاہیے، اسی وجہ سے شہر جگمگا رہا ہے، اس میں تھوڑی سی شاہانہ چمک ہونی چاہیے۔‘
پلاسٹک کے گلدستے، تخت نما صوفے، سنہری نقش و نگار اور نیون روشنیاں اس وسیع کمپلیکس کے چار ہالوں کو سجاتے ہیں، جن میں سے بعض میں 7,000 مہمانوں تک کی گنجائش موجود ہے۔
32 سالہ قومی کا کہنا ہے کہ وہ میونسپلٹی کی بجلی کے لیے ہر ماہ 25,000 سے 30,000 ڈالر خرچ کرتے ہیں، جو صرف چند گھنٹے ہی فراہم کی جاتی ہے۔
روشنیوں کو برقرار رکھنے کے لیے، وہ جنریٹرز پر بھی تقریباً 15,000 ڈالر خرچ کرتے ہیں۔
اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے، وہ ایک شادی کے لیے 20,000 ڈالر تک چارج کرتے ہیں، حالانکہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق، افغانستان کی 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارا کرتی ہے۔
سٹارز پیلس ہال کے مالک حاجی صفی اللہ اسمافی کا کہنا ہے کہ ’افغان ثقافت میں شادی ضروری ہوتی ہے، آپ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا ہے، حتیٰ کہ قرض لینا بھی پڑے۔‘
افغانستان اپنی بجلی وسطی ایشیائی ہمسایہ ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
بجلی کی فراہمی میں اضافے کی امید کے ساتھ، ملک کئی علاقائی توانائی منصوبوں میں شامل ہے، لیکن پیش رفت سست ہے۔
ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا: ’افغانستان میں موجودہ طلب تقریباً 7,000 سے 8,000 میگاواٹ ہے، لیکن وہ مقامی طور پر صرف 1,000 میگاواٹ پیدا کرتے ہیں اور باقی وسطی ایشیا سے درآمد کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ملک کو قابلِ تجدید توانائی ذرائع کی ترقی کی ضرورت ہے، لیکن فنڈنگ کی کمی ہے۔‘
بجلی کی بندش ہیٹنگ کو بھی متاثر کرتی ہے، جبکہ درجہ حرارت آسانی سے نقطہ انجماد سے نیچے گر سکتا ہے۔