نتن یاہو خود اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن بنتے جا رہے ہیں

ایسا لگتا ہے کہ خطے کی مذہبی، سیاسی اور اقتصادی قوت کی طرف سے بھیجا گیا پیغام سمجھ لیا گیا سوائے ایک شخص کے اور وہ ہیں نتن یاہو۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نو دسمبر 2024 کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

گذشتہ منگل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس ختم ہونے کے تقریباً 20 منٹ بعد سعودی عرب نے ایک بیان جاری کیا جس میں ریاض نے تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکان پر اپنی پوزیشن دہرائی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب ’ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھے گا اور اس کے بغیر (اسرائیل سے) سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ غیر متزلزل مؤقف کسی سمجھوتے کا شکار نہیں ہوگا۔‘

بیان کا لب لباب یہ ہے کہ فلسطینی حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔

بیان میں استعمال کیے گئے الفاظ اور فوری ردعمل نے ریاض کے سخت مؤقف کا واضح اظہار کیا۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری اور وزیرِ خارجہ نے اس موقف کو نرم کرنے کی کوشش کی اور ٹرمپ نے بھی کہا کہ وہ اپنی تجویز کے نفاذ میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن دنیا کے متعدد ممالک بشمول برطانیہ اور کئی یورپی ممالک نے ٹرمپ کے اس بیان کے بعد دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ خطے کی مذہبی، سیاسی اور اقتصادی قوت کی طرف سے بھیجا گیا پیغام سمجھ لیا گیا سوائے ایک شخص کے اور وہ ہیں نتن یاہو۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے سعودی موقف کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے موقف کو مزید سخت بناتے ہوئے چینل 14 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’سعودی عرب اپنے ملک میں فلسطینی ریاست قائم کر سکتا ہے، وہاں ان کے پاس کافی زمین ہے۔‘

یہ نتن یاہو جیسے سیاست دان کے لیے مذاق اڑانے اور دھمکانے کی ایک عام چال ہو سکتی ہے۔ اب تک وہ خوش قسمت رہے ہیں اور قتل عام کے باوجود قانونی گرفت سے بچنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے بے ہودہ بیانات انہیں سوشل میڈیا پر ان کے شدت پسند حامیوں سے کچھ لائکس کے علاوہ کوئی فائدہ پہنچائیں گے، تو وہ غلطی پر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی عرب کے موقف کی حمایت میں سامنے آنے والے بے شمار اور سخت بیانات یہ یاد دلاتے ہیں کہ اسرائیل کیا کچھ کھو سکتا ہے۔

نتن یاہو کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی حکومت پر نسل کشی اور پوری قوم کے صفائے کا الزام ہے۔

اس خیال میں مبتلا ہونا سراسر دھوکہ ہوگا کہ نتن یاہو کا ’زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے‘ پر اصرار اور غزہ کے عوام کو ’انسان نما جانور‘ سمجھنا، جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ ’کوئی بھی فلسطینی بے گناہ نہیں ہے‘ (یہ تمام الفاظ اسرائیلی حکومت کے ارکان کے ہیں، میرے نہیں)، کا کوئی احتساب نہیں ہوگا۔

فلسطینی عوام نے اپنی سرزمین کو کبھی نہیں بھلایا اور وہ سات اکتوبر 2023 کے بعد اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو بھی کبھی نہیں بھولیں گے۔

یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ غزہ میں حماس کو مضبوط کرنا اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرنا نتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی 15 سال سے زیادہ عرصے سے سرکاری پالیسی رہی ہے جیسا کہ خود اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔

نتن یاہو نے خود کو نہ صرف سعودی عرب بلکہ وسیع تر عرب اور مسلم دنیا کے لیے ایک ممکنہ شراکت دار سے ایک ناقابلِ قبول شخصیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ کوئی بھی ایسے شخص سے ہاتھ ملانا نہیں چاہے گا جس کے ہاتھ معصوم بچوں کے خون سے رنگے ہوں۔

گذشتہ سال نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فریڈمین نے لکھا تھا کہ نتن یاہو کے پاس رفح پر حملہ کرنے یا ریاض کے ساتھ تعلقات بنانے میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا موقع تھا۔ حیرت کی بات نہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم نے رفح اور قتلِ عام کا راستہ چنا بجائے اس دوسرے راستے کے اختیار کرنے کے جو ایک مربوط، پرامن اور خوشحال خطے کی طرف پہلا قدم ہوتا۔

فیصلوں کے نتائج ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اسرائیلی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے جو فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور ان کے ریاستی حق کو کمزور کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

اس وقت ریاض دو ریاستی حل کے لیے کام کرنے والے ایک عالمی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے اور وہ اپنی سفارتی قوت، عالمی تعلقات اور وسائل کو بروئے کار لا کر فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔

نہ صرف اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے بلکہ اس مرحلے پر نتن یاہو خود اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔

ایک ایسی قوم جنہوں نے 75 سال تک یہ بیانیہ اپنایا کہ انہیں سمندر میں دھکیلنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اب خود غزہ کے عوام کو بے دخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر