انسانوں کے دماغ میں چمچ بھر تک مائیکرو پلاسٹک موجود ہو سکتا ہے اور یہ مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے۔
حالیہ تحقیق سے چونکا دینے والا انکشاف ہوا ہے کہ لوگوں کے جسم کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں دماغ میں سب سے زیادہ مقدار میں مائیکرو پلاسٹک پایا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیق اس ہفتے نیچر میڈیسن میں، جو ایک ماہانہ تحقیقی جریدہ ہے، شائع ہوئی۔ جریدے میں شائع ہونے والے مواد کو اچھی طرح جانچا جاتا ہے۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف نیو میکسیکو، اوکلاہوما سٹیٹ یونیورسٹی، ڈیوک یونیورسٹی اور یونیورسٹی ڈیل ویلے، کولمبیا کے سائنس دانوں نے کی۔
مائیکرو پلاسٹک وہ انتہائی چھوٹے پلاسٹک کے ذرات ہوتے ہیں جن کی لمبائی پانچ ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے اور یہ روزمرہ استعمال ہونے والی پلاسٹک کی اشیا سے خارج ہوتے ہیں۔
محققین نے لکھا کہ یہ ننھے ذرات دماغ کی حفاظتی جھلی میں سے گزر کر کے دماغ تک پہنچ رہے ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ وہ کس طرح دماغ میں داخل ہو رہے ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے 52 ایسے افراد کے دماغوں کا معائنہ کیا جو وفات پا چکے تھے۔ اس معائنے سے معلوم ہوا کہ ان کے دماغوں میں مائیکرو پلاسٹک کی مقدار جگر اور گردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
تحقیق کے مطابق دماغی بافتوں میں اوسطاً 4800 مائیکروگرام فی گرام مائیکرو پلاسٹک پایا گیا۔ یہ مقدار عام پلاسٹک چمچ میں موجود پلاسٹک کے برابر بنتی ہے۔
یونیورسٹی آف نیو میکسیکو کالج آف فارمیسی سے وابستہ ڈاکٹر میتھیو کیمپن نے اس ہفتے ورچوئل نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے مائیکرو پلاسٹک کے انسانی جسم میں داخل ہونے کا عمل بھی تیز ہو رہا ہے۔
جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے سرکردہ مصنف اور زہر کے ماہر کیمپن نے تحریری بیان میں بتایا کہ ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ مقدار اتنی زیادہ ہو سکتی ہے۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا کہ میرے دماغ میں اتنی مقدار میں پلاسٹک موجود ہو۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ مائیکرو پلاسٹک ہمیشہ کے لیے جسم میں نہیں رکتے۔
جگر اور گردوں میں کم مقدار اس بات کی علامت ہے کہ یہ اعضا ہمارے جسم سے پلاسٹک کے اخراج میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
لیکن ایسا ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے جگر میں پلاسٹک کے ذرات موجود ہوں۔ان اعضا میں موجود پلاسٹک کے ذرات کی تصاویر اس نظریے کی تصدیق کرتی ہیں۔
تاہم مرنے والے افراد کے نمونوں سے معلوم ہوا کہ گذشتہ 20 سال میں دماغ اور جگر میں مائیکرو پلاسٹک کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہوا۔ کچھ افراد کے دماغ میں پلاسٹک کی مقدار 50 فیصد زیادہ پائی گئی۔
تحقیق میں شامل 12 مردہ لوگ ڈیمنشیا (دماغی کمزوری) کے مرض میں مبتلا تھے۔ سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ان کے دماغ میں مائیکرو پلاسٹک کی مقدار ان افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی جنہیں یہ بیماری نہیں تھی۔
خاص طور پر یہ ذرات دماغ میں خون کی شریانوں کی دیواروں اور مدافعتی خلیات میں زیادہ مقدار میں موجود تھے۔
محققین نے واضح کیا کہ ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا جو یہ ثابت کر سکے کہ دماغ میں مائیکرو پلاسٹک کی زیادہ مقدار ڈیمنشیا کے مرض کے خدشات بڑھا دیتی ہے۔
یہ نتائج حاصل کرنے کے لیے تحقیقاتی ٹیم نے ان 28 لوگوں کے جسم کا تجزیہ کیا جن کا 2016 میں پوسٹ مارٹم کیا گیا جب کہ 2024 میں پوسٹ مارٹم سے گزرنے والے 24 لوگوں کے جسم کا تجزیہ ہوا۔
دماغی بافتوں کے یہ نمونے نیو میکسیکو آفس آف دی میڈیکل انوسٹی گیٹر نے عطیہ کیے۔ سائنس دان اب تک یہ مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے۔
دیگر تحقیقوں میں بھی مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کا انکشاف ہوا، خاص طور پر وہ افراد جو خون کی شریانیں تنگ ہو جانے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ ایسی حالت ہے جس میں چکنائی ان شریانوں میں جمع ہو جاتی ہے جو دماغ تک خون پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے اپنے مقالے میں لکھا: ’یہ نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں یہ بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی جسم میں کس طرح داخل ہوتا ہے، یہ کس راستے سے جسم میں پھیلتا ہے اور کیسے خارج ہوتا ہے، اور انسانی بافتوں میں موجود پلاسٹک ممکنہ طور پر صحت کے کیا مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ خاص طور پر دماغ میں۔‘
پلاسٹک کے ذرات عام طور پر دماغ کی حفاظتی پرت کے چربی والے خلیات میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ دماغ میں مائیکرو پلاسٹک کی مقدار سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔
پہلے کی گئی تحقیق میں یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی جسم کے مختلف حصوں، مثال کے طور پر پھیپھڑوں، آنول اور خصیوں میں بھی پایا گیا۔
محققین کو شبہ ہے کہ پلاسٹک کے یہ ذرات ہمارے خون میں خوراک کے ذریعے پہنچتے ہیں، خاص طور پر گوشت کھانے سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میتھیو کیمپن کے مطابق تجارتی سطح پر گوشت کی پیداوار میں پلاسٹک خوراک کی زنجیر میں شامل ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہم کھیتوں کو ایسے پانی سے سیراب کرتے ہیں جو پلاسٹک سے آلودہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ پلاسٹک وہیں جمع ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم وہی آلودہ فصلیں اپنے مویشیوں کو کھلاتے ہیں۔ پھر ان مویشیوں کا گوبر کھیتوں میں بطور کھاد استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح پلاسٹک کی مقدار مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔‘
ان کی ٹیم نے دکانوں سے خریدے گئے گوشت میں مائیکرو پلاسٹک کی بڑی مقدار دریافت کی۔
کیمپن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان نتائج پر غور کرنا چاہیے، خاص طور پر اس وقت جب پلاسٹک کی پیداوار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
ان کے بقول: ’ابھی تک میں نے کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا جو یہ کہے کہ ’میرے دماغ میں پلاسٹک بھرا ہوا ہے اور میں اس سے بالکل مطمئن ہوں۔‘
یہ تحقیق کسی حد تک انقلابی مانی جا رہی ہے کیوں کہ اب تک انسانی جسم میں مائیکرو پلاسٹک کی مقدار پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔
ستمبر میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات ناک کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو رہے ہیں۔
اس تحقیق میں 15 انسانی لاشوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔ صرف آٹھ افراد میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی ثابت ہوئی۔
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تمام نمونوں میں مائیکرو پلاسٹک کیوں نہیں پایا گیا لیکن محققین کا خیال ہے کہ ناک کی اندرونی جھلی کی سوزش کی وجہ سے کچھ افراد کے جسم میں پلاسٹک کے ذرات زیادہ آسانی سے داخل ہو گئے جب کہ دیگر لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
© The Independent