امریکہ میں آگ پر پاکستان کو بھی فکر کرنے کی ضرورت

آج کے انسان کو موسمیاتی بحران سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ مزید تقسیم ہونے کی۔

11 جنوری، 2025 کو کیلی فورنیا کے علاقے مینڈویل کینین میں ایک فائر فائٹنگ ہیلی کاپٹر پانی گرا رہا ہے (اے ایف پی)

نئے سال کا آغاز لاس اینجلس میں لگنے والی جنگلاتی آگ کے خوف ناک مناظر دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ماحول اور انسان دوست حلقوں میں فکرمندی کی لہر کے ساتھ ہوا۔

اس تشویش کی ایک وجہ تو واضح ہے کہ کیسے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک اور اس کی امیر ترین آبادی ایک قدرتی آفت کے سامنے بے بس کھڑی ہے۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیسے ماحولیاتی تبدیلی اب عین موسم سرما کے بیچ موسم گرما میں دیکھی جانے والی ایک آفت یعنی جنگل کی آگ کا باعث بن رہی ہے؟

بدقسمتی سے جدید یا پاپولسٹ سیاست نے محض اقتدار اور اختیار کی خاطر انسانوں کے درمیان رنگ، مذہب، نسل کی بنیاد پہ اتنی تفریق ڈال دی ہے کہ آج کا انسان قدرتی آفات پہ ہونے والے دوسروں کے نقصان پر خوشی مناتے بلکہ زیادہ تباہی کی دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں بھی اس تباہ کن آگ پر عمومی عوامی ردعمل غزہ پر جارحیت کے تناظر اور اس پر امریکی غیر موثر کردارکے حوالے سے کچھ ایسا ہی ہے۔

یہاں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جلتی آگ یا سیلاب کے ریلے کے آگے جان بچاتے، بھاگتے انسان سے وہ آفت اس کا مذہب، نسل یا رنگ نہیں پوچھتی۔

بہرحال اس موسمیاتی المیے میں پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے پریشان ہونے کے لیے بہت کچھ ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ بےموسمی سرما کی آگ اب دنیا کے دوسرے خطوں تک ہی محدود نہیں بلکہ مقامی میڈیا رپورٹوں کے مطابق موجودہ موسم سرما میں پاکستان میں بھی ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے اور ہو رہے ہیں۔

مثلاً جس وقت لاس اینجلس میں آتشزدگی کا آغاز ہوا، عین اسی دن ڈیرہ اسماعیل خان کے نزدیک کوہ سلیمان کے بلند و بالا ٹھنڈے جنگلات میں بھی آگ لگ گئی۔

مقامی میڈیا کے مطابق آگ کے شعلے پہاڑ کے شمال میں گاؤں تجری اور دوسرے پہاڑ کے جنوب المرکلاں اور تحصیل ہیڈ کوارٹر درہ زندہ سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

تادم تحریر اس آگ پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا۔ پچھلے ماہ 24 دسمبر کو ایک اور واقعے میں ایبٹ آباد کے قریب ایوبیہ کے مشہور سیاحتی مقام خانس پور کے جنگل میں آگ لگنے سے ہزاروں قیمتی درخت جل گئے، جبکہ دسمبر کے ہی آخری عشرے سے مری کے جنگلات میں بھی آتشزدگی کے ایسے واقعات تسلسل سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق اسی موسم سرما میں چار نومبر کی سرد رات کو ایبٹ آباد کے نزدیک لوئر گلیات میں دکھن سیداں کے جنگل میں لگنے والی آگ کئی کلومیٹر دور پنگھوڑہ سنگلی کے جنگل تک پھیل گئی۔

مقامی لوگوں کے مطابق آتشزدگی سے نہ صرف سردیوں کے لیے ذخیرہ کردہ ایندھن، جانوروں کا گھاس چارہ اور درختوں سمیت جنگلی حیات جل کر خاکستر ہو گئی بلکہ سینکڑوں گھروں کو ڈھانچہ جاتی نقصان بھی پہنچا۔

ماہرین آگ لگنے کے ان واقعات کو ماحولیاتی تبدیلی سے جوڑتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف بارشوں کے روایتی دورانیے بدل گئے ہیں بلکہ موسم گرما بھی طویل اور شدید ہو گیا ہے۔

اس سے جنم لینے والی طویل خشک سالی آگ کو وافر ایندھن (خشک گھاس پھونس اورلکڑیوں کی شکل میں) فراہم کر رہی ہے۔

نیز غیر متوقع تیز ہوا آگ کی لپٹوں کو مزید مہمیز دینے کا باعث بن رہی ہے۔

ان تمام واقعات میں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھاتے پائے گئے ہیں اور یہ ہی فکرمند ہونے کی دوسری بڑی وجہ بھی ہے ۔

جیسا کہ امریکہ سے آنے والی میڈیا رپورٹوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے ہزاروں انتہائی تربیت یافتہ فائر فائٹرز اور ہزاروں فائر بریگیڈ انجن درجنوں ہیلی کاپٹر اور دسیوں آگ بجھانے کے لیے مخصوص ہوائی جہاز آگ کو قابو میں لانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ 2022 میں کوہ سلیمان میں چلغوزے کے جنگلات کو لگنے والی آگ بجھانے کی نہ صرف ہم صلاحیت بلکہ درکار ضروری وسائل سے بھی محروم تھے۔

درجنوں مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت بغیر کسی حفاظتی تدبیر اپنے قیمتی درخت بچاتے آگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ تو بھلا ہو ایران کا کہ جس نے ہماری درخواست پہ آگ بجھانے کے لیے مخصوص جہاز بھیج کر چند گھنٹوں میں آگ پر قابو پا کے ایک ایٹمی طاقت کو مزید سبکی سے بچا لیا۔

ہمیں جنگلاتی آگ قابو میں لانے کے لیے افرادی اور تکنیکی سپورٹ سسٹم حاصل کرنے اور مضبوط کرنے کی اس لیے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ ہمارا دارالحکومت مارگلہ کے پہاڑی جنگلات کےعین نیچے واقع ہے جہاں ہر سال گرمیوں میں آگ لگنا ایک معمول کی بات ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ صلاحیتیں حاصل کرنے کے لیے درکار مالی وسائل کہاں سے لائے جائیں؟ اور یہی ہمارے لیے ایک تیسرا لمحہ فکریہ بھی ہے۔

اگرچہ حالیہ چند سالوں میں پاکستان اور دوسرے کم اخراج والے ترقی پذیرممالک کے دیرینہ مقدمے اور مطالبے یعنی ’لاس اینڈ ڈیمج فنڈ‘ پر کچھ مثبت پیش رفت ہوتی نظرآئی ہے اور زیادہ اخرج والے امیر ممالک اس فنڈ میں مالی اور تکنیکی امداد دینے پہ آمادہ نظر آتے ہیں تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کی تباہیوں سے متاثرہ غریب ممالک کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔

تاہم لاس اینجلس کی جنگلاتی آگ سے ہونے والے (ایک محتاط اندازے کے مطابق) ڈیڑھ ارب ڈالر کے بھاری نقصان نے ترقی پذیر ممالک میں اس تشویش کو جنم دیا ہے کہ اگر بقول ماحولیاتی سائنس دانوں کے ہمارے خوبصورت سیارے کے باسیوں کی فلائٹ 2025 میں ماحولیاتی تبدیلی کے غیر ہموار مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جس میں بلا تفریق امیر غریب، ہر ملک قدرتی آفات اور تباہیوں کا سامنا کرنے کے لیے ایک جیسا غیر محفوظ ہو گا، ایسے میں امیر ممالک خاص طور پے امریکہ کی طرف سے مذکورہ فنڈ پہ پیش رفت سست بھی پڑ سکتی ہے۔

ایسے میں ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے جڑی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے خالص اندرونی وسائل پہ بھروسہ کرنا ہو گا، جو ان کی کمزور معیشتوں کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن سکتا ہے۔

اور ایک آخری تشویش سوشل میڈیا پہ لاس اینجلس کی جنگلاتی آگ کی کوریج کے کمنٹس سیکشن میں پاکستانی عوام کے فاتحانہ اور تشکرانہ خیالات دیکھ کے جنم لیتی ہے کہ اگر کل کلاں ہم جیسے ایک غیر مستحکم ماحول اور معیشت والے ملک کو کسی ایسی ہی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا اور باقی دنیا کے میڈیا سامعین نے بھی ایسا ہی جذباتی ردعمل دکھا کے اپنے حکمرانوں کو ہماری امداد کرنے سے روکا تو ہمارا کیا بنے گا؟

آج کے انسان کو موسمیاتی بحران سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ مزید تقسیم ہونے کی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈاکٹر شفیق احمد کمبوہ سائنسی ابلاغ کے ماہر، جرمنی سے ترقیاتی صحافت میں ڈاکٹریٹ یافتہ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے سکول آف کمیونیکشن سٹڈیز سے بسلسلہ تحقیق و تدریس 20 سال سے وابستہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات