فروری کے مہینے کے دو ہفتے گزرنے کو ہیں، بہار کی آمد آمد ہے لیکن لاہور شہر کی فضائیں رنگ برنگی اڑتی پتنگوں سے محروم ہیں۔
پنجاب میں دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے کہ مختلف اوقات میں دھاتی ڈور سے اموات اور لوگوں کے زخمی ہونے کی وجہ سے بسنت منانے پر پابندی ہے۔
لیکن اس سال گذشتہ ماہ صوبائی اسمبلی میں بسنت کی ممانعت پرایک بل بھی منظور کیا گیا ہے جس کے تحت اب پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں جرمانہ بھی ہو گا اور قید بھی۔
پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے ’پنگ بازی کی ممانعت ترمیمی ایکٹ 2024 کے مطابق‘ اب پتنگ بازی ایک ناقابل ضمانت جرم ہوگا اور خلاف ورزی پر تین سے سات سال قید جبکہ پنگ بازی، تیاری، فروخت و نقل و حمل پر پانچ لکھ سے 50 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
ترمیمی ایکٹ کے مطابق ’پتنگوں، دھاتی تاروں، نائلون کی ڈور، تندی، مانجھا پر پابندی کا اطلاق ہوگا اور پتنگ اڑانے والے کو تین سے پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ پتنگ بازی میں ملوث بچے کے والدین کو بھی پہلی بار 50 ہزار جبکہ دوسری بار خلاف ورزی کرنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔‘
لاہور شہر کی ایک معروف سماجی اور ثقافتی شخصیت میاں یوسف صلاح الدین جو قومی شاعر علامہ اقبال کے نواسے بھی ہیں، اندرون شہر لاہور میں اپنے مکان ’حویلی بارود خانہ‘ میں کئی سالوں تک بسنت کے تہوار کا اہتمام کروانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
میاں یوسف صلاح الدین نے بسنت کی پرانی یادیں انڈپینڈنٹ اردو کو سناتے ہوئے بتایا کہ ’میں تو بچپن سے لاہور کے اندرون شہر میں بسنت ہوتے دیکھ رہا ہوں، ہمارے بزرگ جن میں علامہ اقبال بھی شامل ہیں بسنت منایا کرتے تھے۔
’علامہ اقبال چونکہ نازک مزاج تھے اس لیے ان کے لیے خاص نرم قسم کی پتنگیں بنائی جاتی تھیں کیونکہ وہ گھبراتے تھے کہ کہیں ان کا ہاتھ نہ کٹ جائے۔‘
انہوں نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بسنت ایک ایسا تہوار تھا جس طرح ویساکھی یا دیگر تہوار ہیں۔ ویساکھی فصل کی کٹائی کے موقع پر منایا جاتا ہے، اس طرح کے لوکل میلوں خاص طور پر بسنت کا پنجاب کے ساتھ بہت گہرا تعلق رہا ہے اور لاہور میں بسنت کو منایا جاتا تھا پتنگ بازی کے ساتھ۔۔‘
’بسنت کا نام ہی بسنت پالا اڑت یعنی سردی کا آخری دن بسنت کا ہوگا کیونکہ اس روز بہار کی آمد ہوگی۔ یہاں دو فروری کے بعد سے گرمی شروع ہو گئی ہے جبکہ انڈیا میں بھی دو تاریخ کو بسنت منائی گئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اگر پابندی نہ ہوتی تو اس وقت لاہور شہر کے آسمان پر پتنگیں اڑ رہی ہوتیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بسنت دراصل مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تہوار تھا جس میں انہیں اپنے گھروں سے کہیں جانا نہیں پڑتا تھا۔ سب لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ جاتے تھے اور عورتیں کھانا بنا لیتی تھیں۔ اس طرح بسنت منا لی جاتی تھی۔
’اس دوران ماحول دیکھنے والا ہوتا تھا کہ ہزاروں لوگ اپنی چھتوں پر چڑھے ہوتے تھے، جوش و خروش ہوتا تھا اور اس بسنت کے دو روز کے دوران لاہور مکمل طور پر تبدیل ہو جایا کرتا تھا۔‘
میاں یوسف صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بسنت پر پابندی لگانے سے پہلے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ بسنت کا تہوار پورے ملک خاص طور پر لاہور کے لیے ایک پیسہ بنانے والا تہوار تھا۔ ہر چیز بسنت کے دنوں میں بک جاتی تھی نہ کوئی کباب والا ملتا تھا، نہ چوڑیوں والا، نہ رنگ ریز، ہر ڈیزائنر بسنت کے لیے کپڑے ڈیزائن کرتا تھا یہاں تک کہ بال بنانے والے بھی بسنت کی مناسبت سے بالوں کی سٹائلنگ کرتے تھے۔
’مجھے یاد ہے کہ میرے ایک بہت اچھے دوست جو لندن میں بالوں کے سٹائلسٹ ہیں وہ ایک مرتبہ خاص یہاں آئے اور بسنت کے لیے بالوں کی سٹائلنگ کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ بسنت کے دوران لوگ دیگر ممالک سے یہاں آیا کرتے تھے یہاں تک کہ ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی تھی، سپیشل ٹرینیں لاہور آتی تھیں اور ابھی تو مغربی ممالک میں بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ یہاں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے اس کے باوجود وہاں سے بھی لوگ آتے تھے۔
حویلی بارود خانہ میں بسنت منانے کا خیال کیسے آیا؟
انہوں نے بتایا کہ ’ایک سال سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے ساتھ ڈیوک اینڈ ڈچس آف سمرسیٹ کو حویلی لے آئے، جب وہ لوگ چھت پر چڑھے تو وہ اتنا حیران ہوئے اور کہا کہ انہوں نے تو کبھی زندگی میں ایسا کوئی تہوار دیکھا ہی نہیں جس میں سارا شہر اپنی چھتوں پر چڑھا ہوا ہے۔
’ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتا تو ایک بہت بڑا تہوار بن جاتا۔ بس ان کی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی۔‘
میاں یوسف صلاح الدین نے مزید بتایا کہ انہوں نے جنگ اخبار کے مالک میر شکیل الرحمان سے بات کی کہ بسنت کا تہوار بڑے پیمانے پر مناتے ہیں جس کے لیے وہ مان گئے۔
’میں اس زمانے میں سیاست میں بھی تھا اس لیے اس سے اگلے سال جو بسنت آئی اس میں میں نے حویلی میں تین، چار سو لوگوں جن میں سلیبرٹیز بھی تھیں، انڈیا سے کچھ لوگ آئے، مقامی سیاست دان، بیورو کریٹس، ڈپلومیٹس یعنی ہر قسم کے لوگوں کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کر لیا کیونکہ بسنت دراصل دن کا تہوار ہے رات کا نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس سے اگلے روز جنگ اخبار میں اس بسنت کی تقریباً 35 تصاویر چھپ گئیں جس سے لاہوریوں کو ایک شاک لگا کہ یہ کیا ہے اور اس سے اتنا فائدہ ہوا کہ پھر ینگ پریذیڈنٹ آرگنائزیشنز چیف اگزیکٹیوز نے پہلی مرتبہ پاکستان میں بسنت منانے کا سوچا جس کا انتظام ہم نے کیا اور پہلی مرتبہ ان کے لیے ہم نے نائٹ بسنت بھی کروائی جس میں سعودی شاہی خاندان کے بہت سے لوگ شامل ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس تہوار کے دوران حکومت کے ساتھ ساتھ چھوٹے سے چھوٹا کاروبار کرنے والا بھی پیسہ بناتا تھا۔
کیا بسنت پر پابندی ہی واحد حل ہے؟
اس حوالے سے یوسف صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ یہ خطرناک کھیل بن چکا ہے۔ اس میں لوگوں کی اموات ہوئیں ہیں لیکن ہر چیز کو دیکھنا پڑتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی چیز کو مکمل بند کر دیں آپ مسئلے کا حال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ بسنت کا فائدہ بھی ہے۔
’آپ کرکٹ میچ کے دوران پورا شہر بند کر دیتے ہیں۔ میں نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ایک دن کے لیے موٹر سائیکل پر پابندی لگا دیں۔ زیادہ حادثات موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ہوئے جن کی گردنیں دھاتی ڈور سے کٹیں، لیکن کیا حکومت اتنا نہیں کر سکتی کہ جو چند دھاتی ڈور بنانے والے ہیں ان کو پکڑا جائے اور اس ڈور کو ختم کروایا جائے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ اس میلے کو اندرون شہر میں لے آئیں کیونکہ یہاں گلیاں اتنی چھوٹی ہیں کہ ڈور نیچے تک نہیں جاتی، سرکلر روڈ پر موٹر سائیکل پر ایک ڈیڑھ دن کا بین لگا دیں اور بسنت کو شروع کریں اور آہستہ آہستہ ڈوریں بنانے والوں کو پکڑیں، پرانے وقتوں میں جو کاٹن کی ڈور استعمال ہوتی تھی اسے استعمال کیا جائے۔
’میں نے تو ہر حکومت میں کوشش کی ہے کہ اس تہوار کو بحال کیا جائے لیکن اگر اب وہ نہیں کرنا چاہتے تو میں نے بھی اب اس پر دل چھوڑ ہی دیا ہے اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔‘