پتوکی: ’چندہ باکس میں کرنٹ‘ سے نوجوان کی موت، مسجد انتظامیہ پر مقدمہ

کرنٹ لگنے سے مرنے والے تنویر کے ورثا نے پولیس کو درخواست دی کہ وہ اس کا پوسٹ مارٹم یا کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے، جس پر پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔

 13 اکتوبر 2020 کو لاہور میں پنجاب پولیس کی ایک گاڑی۔ پتوکی میں نوجوان کی کرنٹ سے موت کا مقدمہ پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کیا  (اے ایف پی / عارف علی)

پنجاب کے شہر پتوکی میں مسجد کے چندہ جمع کرنے والے لوہے کے باکس میں مبینہ طور پر چھوڑے گئے کرنٹ سے نوجوان تنویر اختر جان سے چلے گئے جس کے بعد بدھ کو مسجد کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او میاں امین نے انڈپیںڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس گاؤں میں پانچ سے چھ مساجد اور مدرسے ہیں جہاں چندہ جمع کرنے کے لیے لوہے کے غلے رکھے ہوئے ہیں۔ ان مساجد اور مدرسوں کی انتظامیہ رات کو کرنٹ چھوڑ دیتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پولیس نے تنویر کی موت پر مسجد انتظامیہ کے چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی ہے۔

دوسری جانب مسجد انتظامیہ کمیٹی کے رکن حاجی محمد صابر کے بقول، ’مسجد کے چندہ جمع کرنے والے غلے سے نشے کے عادی رات کو چندہ چوری کرتے ہیں۔ ان واقعات کو روکنے کے لیے لوہے کے غلے میں کرنٹ چھوڑنا پڑا۔

’پولیس چوری روکنے کی بجائے کرنٹ چھوڑنے پر الٹا انتظامیہ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔‘

کرنٹ لگنے سے مرنے والے تنویر کے ورثا نے پولیس کو درخواست دی کہ وہ اس کا پوسٹ مارٹم یا کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے، جس پر پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

ایس ایچ او تھانہ صدر پتوکی میاں امین کے مطابق ’10اور 11فروری کی رات ایک شہری نے 15 پر کال کی کہ چک نمبر 13جود سنگھ والا گاؤں میں قبرستان والی مسجد کے گیٹ پر ایک نوجوان کی لاش پڑی ہے۔ پولیس ٹیم نے فوری موقعے پر پہنچ کر لاش قبضے میں لی۔ یہ لاش تنویر اختر کی تھی جو شاید مسجد کے غلے سے چندے کے پیسے نکالنے کی کوشش میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے فوت ہو گیا۔‘

ایس ایچ او کے بقول، ’ابتدائی معلومات کے مطابق مسجد کی انتظامیہ نے لوہے سے بنے اس غلے میں کرنٹ چھوڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے واقعہ پیش آیا۔ اس کے علاوہ بھی اس گاؤں کی پانچ سے چھ مساجد اور مدارس کی انتظامیہ نے لوہے سے بنے چندے کے غلوں میں رات کو کرنٹ چھوڑا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پولیس نے اپنی مدعیت میں مسجد انتظامیہ کمیٹی کے اراکین محمد اسلم، حاجی صابر، محمد اشرف، محمد اصغر، مزمل حسین اور محمد یاسر کے خلاف دفعہ 322 مقدمہ درج کر لیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ملزموں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں تاہم ابھی تک کوئی گرفتار نہیں ہوسکا۔‘

انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیوں ہوا؟

مسجد انتظامیہ کمیٹی کے رکن حاجی صابر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’گاؤں کی مساجد اور مدرسوں کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے ہم نے غلے رکھے تو رات کو نشے کے عادی ان غلوں سے چندے کے پیسے نکال لیتے تھے۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ لوہے کے غلے کافی نہیں کیونکہ چندے کی چوری جاری تھی۔

’ہم نے غلے میں رات کوکرنٹ چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا اور مساجد میں اعلان بھی کر دیا کہ رات کے وقت کوئی بھی ان غلوں کو ہاتھ نہ لگائے۔‘

صابر کے بقول، ’تنویر اختر بھی نشے کا عادی تھا وہ غلے سے پیسے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا اسی دوران کرنٹ لگنے سے اس کی موت ہوگئی۔ پولیس کو چوری کی شکایات کی گئیں لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی اب یہ واقعہ پیش آیا تو ہمارے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔‘

ایس ایچ او میاں امین کے مطابق ’مسجد انتظامیہ کے خلاف ہم نے اپنی مدعیت میں مقدمہ اس لیے درج کیا کہ انہوں نے غیر قانونی اور خطرناک کام کیا جس سے انسانی جان چلی گئی۔

’چار دیواری میں داخلے سے روکنے کے لیے دیواروں پر تاروں میں کرنٹ چھوڑا جا سکتا ہے لیکن ساتھ تحریری بورڈ بھی لگانا ہوتا ہے کہ ان تاروں میں یا گیٹ میں کرنٹ ہے۔ لیکن راستے میں پڑے ہوئے لوہے کے غلے میں کرنٹ چھوڑنا خطرناک ہے کیونکہ اسے کوئی بھی چھو سکتا ہے۔‘

ایس ایچ او کے بقول، ’اگر کوئی رات کو چندہ غلے میں ڈالنا چاہے یا راہ چلتا کوئی اسے چھو لے تو اس کی بھی جان جا سکتی ہے۔ ہمیں انتظامیہ نے غلے سے چوری کی کوئی شکایت نہیں کی بلکہ اپنے طور پر ہی یہ خطرناک طریقہ اپنایا۔ یہ صرف اسی مسجد میں نہیں بلکہ یہاں دیگر مساجد اور مدارس انتظامیہ نے بھی یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس واقعے کے بعد سب مساجد اور مدارس کے غلوں میں بجلی چھوڑنے کا کنیکشن منقطع کرا دیا ہے۔ اگر چوری ہوتی بھی ہے تو ایسے واقعات روکنے کا قانونی طریقہ موجود ہے مگر کسی کے قانون ہاتھ میں لینے سے تو مسائل بڑھتے ہیں۔ ویسے بھی چوری کی سزا موت تو نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ چندہ کسی کی ذاتی ملکیت ہوسکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان