پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے جیسے حالات پی ٹی آئی حکومت میں تھے ویسے ہی موجودہ حکومت میں بھی ہیں۔
سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں حکومت کو ضرورت پڑتی ہے وہ میڈیا کو دباتی ہے اور جس بہتری کی توقع تھی وہ فی الحال نظر نہیں آئی ہے۔‘
تاہم ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا پر ہتک عزت کا سیلاب آ رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ کس طرح خواتین صحافی اور سیاست دانوں کی جعلی فحش تصاویر بنائی گئیں۔‘
’ہمیں اس بیماری کا تو معلوم ہے مگر اس کا علاج ریاست تخلیقی طریقے سے نہیں کر سکی، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ پاکستان آسانی سے ’بین استان ‘ بن جاتا ہے کہ اسے بین کر دو۔‘
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے اور پیکا قانون کے خلاف جو تحریک اٹھی ہے، میں سمجھتا ہوں جو صحافی سچ لکھے گا اس پر کوئی قدغن نہیں ہو گی۔‘
کیا پاکستان میں قانون کا استعمال درست کیا جاتا ہے؟
پاکستان میں سیاست دان مختلف ادوار میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیوں پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے رہے ہیں اور اب صحافی پیکا قانون کی بھی مخالفت یہ کہتے ہوئے کر رہے ہیں کہ اس کا ’درست استعمال‘ شاید نہ کیا جائے۔
اس معاملے پر خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ ’میری پہلے بھی رائے تھی کہ نیب کا قانون غلط ہے اسے ختم ہونا چاہیے اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ اسے ختم ہونا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’21 ویں صدی کے پاکستان کی ریاست اس معاملے کو نہیں سمجھ پائی کہ کیسے کرنا چاہے وہ نیب ہو کہ سرکاری اہلکاروں کا احتساب کیسے کرنا ہے اور اسی طرح پیکا اور دیگر میڈیا قانون کو آئین میں موجود شہری آزادی کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر موجود گند کو کیسے روکا جائے۔‘
پیکا قانون سے متعلق خرم دستگیر کہتے ہیں کہ ’میری توقع ہے کہ آئندہ دنوں میں حکومتی وزیر صحافی تنظیموں سے مل کر اس پر مزید مشاورت کریں گے اور جہاں ضرورت پڑی قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے۔‘
پیکا قانون کے مطابق کیا سزا ہوگی اور جعلی خبر کی تعریف کیا ہے؟
پیکا ترمیمی بل منظور ہو چکا ہے اور اس کے تحت جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے کی سزا تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گی، یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
بل کے مسودے کے مطابق نئی شق ون-اے کے تحت ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کی جائے گی، جس کا کام ’غیر قانونی مواد‘ کی روک تھام ہو گا۔
بل کے مطابق ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔
تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔
بل کے مطابق پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔
’پی ٹی آئی شواہد دیتی تو 26 نومبر کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بن جاتا‘
26 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج سے نمٹنے کے طریقہ کار سے متعلق خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’یہ تو انڈپینڈنٹ اردو جیسے اداروں کو ہمیں تحقیق کر کے بتانا ہے کہ کیا ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پانچ رینجرز اور ایک پولیس اہلکار کی جان گئی اور ظاہر ہے ان کو ریاست نے تو شہید نہیں کیا۔ کہیں نا کہیں متشدد اور مسلحہ لوگ آئے اور اس پر گفتگو ہو سکتی ہے۔‘
خرم دستگیر کی رائے تھی کہ ’اگر احتجاج کرنے والی جماعت مذاکرات کے دوران ٹھوس شواہد لے کر آتی تو اس پر جوڈیشل کمیشن بن سکتا تھا۔‘