فلسطینیوں کو بےدخل کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو ہو: اردن کے شاہ عبد اللہ

شاہ عبداللہ نے بعد میں کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مخالفت کے حوالے سے اردن کے ’مستقل مؤقف‘ کا اعادہ کیا۔

11 فروری 2025 کی اس تصویر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اردن کے شاہ عبداللی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران (اے ایف پی/ ساول لوب)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم پر زور دیا کہ وہ ان فلسطینیوں کو پناہ دیں جو امریکہ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کے تحت مستقل طور پر بے گھر ہو جائیں گے، تاہم شاہ عبداللہ نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ملک اس اقدام کے سخت مخالف ہے۔

واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس میں عرب رہنما کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے اس خیال سے پیچھے ہٹنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ  کے جنگ زدہ علاقے کو مشرق وسطیٰ کے ’ریویرا‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے عرب دنیا کو مشتعل کر دیا ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی، جب کہ ان کے منصوبے کے تحت غزہ کے علاقے کو ازسرِ نو تعمیر کیا جائے گا، جو اسرائیلی حملے کے نتیجے میں تباہ ہو چکا ہے۔

اوول آفس میں گفتگو کے دوران ٹرمپ نے کہا، ’ہم اس (غزہ) کو سنبھالیں گے، اس کا خیال رکھیں گے، اسے ترقی دیں گے، اور یہ مشرق وسطیٰ کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔‘

شاہ عبداللہ نے بعد میں کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مخالفت کے حوالے سے اردن کے ’مستقل مؤقف‘ کا اعادہ کیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں لکھا: ’یہ تمام عرب ممالک کا متفقہ مؤقف ہے۔ سب کی اولین ترجیح فلسطینیوں کو بےدخل کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو اور سنگین انسانی بحران کے حل پر ہونی چاہیے۔‘

اگرچہ شاہ عبداللہ نے فلسطینیوں کی بے دخلی کو مسترد کیا، لیکن ٹرمپ نے کہا کہ اردن اور مصر بالآخر غزہ کے بےگھر باشندوں کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ٹرمپ نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس اردن میں زمین کا ایک ٹکڑا ہوگا، اور مصر میں بھی۔ ہم کسی اور جگہ کا بھی انتظام کر سکتے ہیں، لیکن میرے خیال میں جب ہماری بات چیت مکمل ہو جائے گی، تو ہم ایک ایسی جگہ حاصل کر لیں گے جہاں وہ خوش اور محفوظ زندگی گزار سکیں گے۔‘

ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ اردن کی امداد روک سکتے ہیں، لیکن کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی دھمکی نہیں دے رہے۔

انہوں نے کہا، ’ہم اردن کو بہت زیادہ مالی امداد دیتے ہیں، اور مصر کو بھی۔ لیکن مجھے دھمکی دینے کی ضرورت نہیں، ہم اس سے بالاتر ہیں۔‘

شاہ عبداللہ پہلے بھی فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی اور زمین چھیننے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ وہ ٹرمپ کے متنازع منصوبے کے اعلان کے بعد ان سے ملاقات کرنے والے پہلے عرب رہنما ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ دونوں رہنماؤں کے درمیان خوشگوار ماحول رہا، لیکن غزہ سے متعلق ٹرمپ کے بیانات نے شاہ عبداللہ کو ایک مشکل صورت حال میں ڈال دیا، کیونکہ اردن میں فلسطینیوں کے اس حقِ واپسی کا معاملہ انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے، جس کے تحت وہ ان علاقوں میں واپس جانا چاہتے ہیں جہاں سے وہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت تنازعے کے دوران نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

ملاقات کے دوران ٹرمپ نے شاہ عبداللہ سے کہا کہ وہ غزہ سے بےدخل کیے جانے والے فلسطینیوں کو اپنے ملک میں جگہ دینے پر آمادگی ظاہر کریں۔

اردن کے بادشاہ نے جواب میں کہا کہ وہ اپنی قوم کے مفادات کو ترجیح دیں گے، تاہم اردن غزہ کے دو ہزار بیمار بچوں کو علاج کے لیے قبول کرے گا، جس پر ٹرمپ نے ان کی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ عرب ممالک واشنگٹن میں ایک الگ تجویز کے ساتھ آئیں گے۔

بعد ازاں، اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے سرکاری ٹی وی ’المملکہ‘ کو بتایا کہ مصر کی قیادت میں ایک عرب منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد غزہ کی تعمیر نو کرنا ہے، لیکن اس میں فلسطینیوں کی نقل مکانی شامل نہیں ہو گی۔

اردنی حکام نے مذاکرات سے قبل کہا تھا کہ وہ ایسی کسی بھی عوامی ملاقات سے گریز کرنا چاہتے ہیں، جہاں ٹرمپ بادشاہ کو مشکل میں ڈال سکتے تھے، اور اوول آفس میں دیے گئے بیانات پہلے سے طے شدہ نہیں تھے۔

دونوں رہنماؤں نے صحافیوں کے سامنے گفتگو کی، جب کہ اس موقعے پر اردن کے ولی عہد شہزادہ حسین، وزیر خارجہ ایمن الصفدی، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔ بعد ازاں، شاہ عبداللہ نے امریکی سینیٹ میں رپبلکن اکثریتی رہنما جان تھون سمیت ایک دو جماعتی سینیٹرز کے گروپ سے بھی ملاقات کی۔

سعودی عرب، شام، اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے کے درمیان گھرا ہوا اردن پہلے ہی ایک کروڑ 10 لاکھ کی آبادی میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کو جگہ دے چکا ہے، اور ان کی تعداد ملک کی قیادت کے لیے طویل عرصے سے باعثِ تشویش بنی ہوئی ہے۔

ادھر، عمان کو ٹرمپ کی جانب سے 90 دن کے لیے امریکی امداد معطل کرنے کے فیصلے کے اثرات کا سامنا ہے۔ اسرائیل اور مصر کو اس پابندی سے استثنیٰ مل چکا ہے، لیکن اردن کو دی جانے والی سالانہ 1.45 ارب ڈالر کی امداد بدستور معطل ہے اور اسے بحال کرنے کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے تمام غیر ملکی امداد کے جائزے کے بعد ہو گا۔

نازک فائر بندی

ٹرمپ کی تجویز نے خطے میں پہلے سے حساس سفارتی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جس میں اسرائیل اور فلسطینی  تنظیم حماس کے درمیان ایک نازک فائر بندی بھی شامل ہے۔

حماس نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو غیر معینہ مدت تک روک رہی ہے، کیونکہ اسرائیل مسلسل غزہ پر حملے جاری رکھ کر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

 دوسری جانب، ٹرمپ نے تجویز دی کہ اگر حماس سات اکتوبر 2023 کو پکڑے گئے تمام قیدی ہفتے تک رہا نہیں کرتی، تو  فائر بندی کو منسوخ کر دینا چاہیے۔

منگل کو ٹرمپ نے کہا: ’اگر حماس نے مقررہ مدت تک قیدیوں کو رہا نہ کیا، تو پھر کسی شرط کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا