گنڈا پور نے جھوٹ کے لیے صوبائی اسمبلی استعمال کی: حکومت

وفاقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ’منصوبہ بندی‘ اور ’مربوط طریقوں‘سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ’اموات کے جعلی پروپیگنڈے‘ کا سہارا لیا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے 27 نومبر 2024 کو مانسہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

وفاقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حالیہ احتجاج کے تناظر میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے صوبائی اسمبلی کو ’حقائق مسخ‘ کرنے اور صریح ’جھوٹ پھیلانے‘ کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’علی امین گنڈا پور نے قومی اداروں کے خلاف بے بنیاد اشتعال انگیز بیانات دیے اور معصوم نوجوانوں کو ایسی ناپسندیدہ سرگرمیوں کے لیے اکسایا۔‘

بیان کے مطابق پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ’منصوبہ بندی‘ اور ’مربوط طریقوں‘ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ’اموات کے جعلی پروپیگنڈے‘ کا سہارا لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 نومبر کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا مرکزی قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے نکلا تھا، جن کے مطالبات میں عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی، 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی اور قانون کی حکمرانی شامل تھے۔

یہ قافلہ 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچا تھا جس کے بعد سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ان کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا اور ڈی چوک کو پی ٹی آئی کارکنان سے خالی کروایا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے جمعے کو پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران 12 کارکنان قتل کیے گئے اور کئی زخمی ہیں، تاہم پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اموات کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار بیان کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے جمعے کو صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگلی بار ایسا ہوا تو گولیوں کا جواب گولیوں سے دیں گے۔‘

علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ’حق کے لیے گولیاں کھائیں گے اور ہو سکے تو ماریں گے۔ ہمارے بچوں کو شہید کیا گیا اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بھاگ گئے، کیا وہ دہشت گرد تھے کہ بھاگ گئے؟‘

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے ایسا ’بے معنی، پرتشدد اور ناکام سرگرمی سے توجہ ہٹانے‘ کے لیے کیا۔

بیان میں مزید کہا گیا: ’دارالحکومت کے تمام بڑے ہسپتالوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مبینہ فائرنگ سے ہونے والی اموات کی رپورٹوں کو مسترد کر دیا تاہم پی ٹی آئی کی طرف سے شروع کی گئی اس شیطانی مہم میں مسلسل من گھڑت سوشل میڈیا مہم پرانے اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ کلپس کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسرے دشمن عناصر بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔‘

وزارت داخلہ کے مطابق: ’سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت اور ان کے آفیشل پیجز پر 10 سے لے کر سینکڑوں بلکہ ہزاروں تک اموات کے متعدد جھوٹے دعوے کیے گئے ہیں۔‘

مزید کہا گیا: ’تشویش ناک بات یہ ہے کہ غیر ملکی میڈیا کے بعض عناصر بھی بغیر کسی مصدقہ ثبوت کے ان جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔ حکومتی عہدیداران بشمول وزرا کے ساتھ ساتھ چیف کمشنر اسلام آباد اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار، جو ان فسادات پر قابو پانے کی کارروائیوں میں براہ راست شامل تھے، پہلے ہی بار بار مصدقہ شواہد کے ساتھ اصل صورت حال اور واقعات کی وضاحت کر چکے ہیں۔

’یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہیے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے مہلک ذرائع کا استعمال اگر کیا بھی جاتا تو وہ ریڈ زون کے اندر میڈیا کے کیمروں اور لوگوں کی موجودگی کی بجائے (مارچ کے) راستے کے متعدد مقامات پر کیا جاتا۔‘

بقول وزارت داخلہ پولیس اور رینجرز نے اس پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اسلحے کا استعمال نہیں کیا۔ 

مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں پاکستان فوج کو تعینات کیا گیا، جس کا مقصد اہم تنصیبات کو محفوظ اور غیر ملکی سفارت کاروں کی حفاظت اور دورے پر آئے اہم وفود کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنانا تھا۔

’پاکستانی فوج  کا اس تشدد ہجوم سے براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا اور نہ ہی وہ فسادات کو کنٹرول کرنے پر تعینات تھی۔‘

بیان کے مطابق: ’سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، کئی زخمی ہوئے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر پاکستان کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کئی دنوں تک شدید جسمانی مشکلات برداشت کیں۔ اب بھی رینجرز اور پولیس کے کئی جوان شدید زخمی ہیں اور انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔‘

وزارت داخلہ کے مطابق: ’بدقسمتی سے پی ٹی آئی اور اس کا سوشل میڈیا ونگ پروپیگنڈے کے ذریعے معاشرے میں تفرقہ اور انتشار پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسے عناصر خواہ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک، ان کا متعلقہ قوانین کے تحت ضرور احتساب کیا جائے گا اور کسی کو تقسیم، نفرت اور جھوٹی خبریں پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’پرتشدد مظاہرین سے 18 خودکار ہتھیاروں سمیت 39 مہلک ہتھیار برآمد ہوئے ہیں اور گرفتار کیے گئے مجرموں میں تین درجن سے زائد غیر ملکی بھی شامل ہیں جن کو اس کام کے لیے اجرت دی گئی تھی۔‘

وفاقی وزارت داخلہ نے مظاہروں کے دوران ہونے والے مادی نقصانات کے حوالے سے ابتدائی اندازوں کے مطابق اربوں روپے نقصان کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

’ان پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے معیشت کو بالواسطہ نقصانات کا تخمینہ 192 ارب روپے یومیہ ہے۔ اس کے علاوہ ضروری حفاظتی اقدامات کرنے پر بھی قابل قدر اخراجات ہوئے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست