پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی سے متعلق ڈیل کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے وضاحت کردی ہے کہ انہوں نے کسی سے یہ بات نہیں کہ کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کی رہائی میں کردار ادا کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں شیخ وقاص اکرم نے علی امین گنڈاپور سے منسوب بیان اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے ڈیل سے متعلق بیانات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’خواجہ آصف کی باتوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔‘
شیخ وقاص اکرم نے سینیٹر فیصل واوڈا کے بیانات سچ ثابت ہونے کے تاثر کو بھی غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے آٹھ فروری کے عام انتخابات سے پہلے پیشگوئی کی تھی کہ پی ٹی آئی ایک نشست بھی نہیں جیت سکے گی، ہم ایک نہیں کئی سیٹیں جیتے۔ انہوں نے ایک بار کہا کہ ڈی چوک میں چڑیا پر نہیں مار سکے گی لیکن وہاں ہزاروں بندوں نے آکر احتجاج ریکارڈ کروایا۔‘
بقول شیخ وقاص اکرم: ’فیصل واوڈا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کسی صوبے میں نہیں بن سکے گی، ہم نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی، فیصل واوڈا کو اتنی ہی معلومات دی جاتی ہے جتنا وہ ٹی وی پروگرام میں بیٹھ سکیں۔‘
بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس میں رواں برس 31 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی ضمانت کئی مرتبہ مسترد کی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 23 اکتوبر کو توشہ خانہ ٹو کیس میں 10، 10 لاکھ روپے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کی رہائی کا حکم دیا تھا، تاہم اس دن ان کی رہائی کی روبکار جاری نہ ہوسکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقریباً نو ماہ بعد بشریٰ بی بی کو 24 اکتوبر کو رہا کیا گیا، جس کے بعد وہ بنی گالہ یا لاہور جانے کی بجائے پشاور روانہ ہوگئیں۔
جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ توشہ خانہ کیس میں بشریٰ بی بی کی ضمانت اور رہائی ’ڈیل کا نتیجہ‘ ہے، تاہم پی ٹی آئی نے اس دعوے کی تردید کر دی تھی۔
پی ٹی آئی کے حال ہی میں ہونے والے احتجاج میں قیادت کی غیر موجودگی پر شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ’یہ مشترکہ فیصلہ تھا، کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں قیادت کو دوبارہ متحرک کروانے کے لیے یہ حکمت عملی تیار کی گئی تھی۔ ہم نے اپنے کارکنوں کو وقت دینا ہے۔ آہستہ آہستہ نئے پلان بنائے جا رہے ہیں اور گرفتار بندوں کو چھڑوا رہے ہیں۔ نئی حکمت عملی کے تحت اب پشاور سے احتجاج شروع کرنے جا رہے ہیں۔‘
شیخ وقاص اکرم نے تسلیم کیا کہ جب خیبر پختونخوا ہاؤس میں علی امین گنڈاپور کی گرفتاری کے لیے آپریشن جاری تھا تو اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان تین بار خیبر پختونخواہ ہاؤس گئے۔
بیرسٹر گوہر کو گرفتار نہ کرنے سے متعلق سوال پر شیخ وقاص اکرم نے موقف اختیار کیا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ وہ پارٹی کے چیئرمین ہیں اور وہ بھی علی امین گنڈاپور کو ہی ڈھونڈ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے بنائے جانے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ اس لیے کیا گیا کہ ’ہمارا وہاں بیٹھنا سود مند نہیں تھا، دوتہائی اکثریت ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، ڈراما کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’آئینی بینچ کے سربراہ کے لیے جوڈیشل کونسل کا حصہ اس لیے بن رہے ہیں کہ یہاں 13 ارکان کی کمیٹی ہے، اگر ہم نہیں بیٹھیں گے تو انہیں سات ارکان کی اکثریت مل جائے گی۔
’جب تک 26ویں ترمیم کو چیلنج نہیں کر دیتے، تب تک ہم اس کا حصہ بن کر عدلیہ کا ساتھ دے سکتے ہیں اور حکومتی ارکان کو یکطرفہ فیصلہ کرنے سے روک سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور احتجاج کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، ’چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب میں انہیں اس لیے بھی جانا چاہیے تھا کہ ہمیں طریقہ کار سے مسئلہ تھا، ہمیں کسی فرد واحد سے مسئلہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے ہم نے مولانا فضل الرحمٰن سے بات چیت کی لیکن ہماری مرضی کا مسودہ نہیں تھا، ہم نے ان کے ساتھ مل کر مسودہ نہیں بنایا، بلکہ جو قابل اعتراض چیزیں تھیں، ان سے متعلق ان سے بات چیت کی۔
سپریم کورٹ بار کونسل کے الیکشن سے متعلق بات کرتے ہوئے شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ’ہم سے دو روز قبل سپورٹ مانگی گئی، اگر دو مہینے پہلے مہم کی جاتی تو شاید نتیجہ الگ ہوتا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے وکلا مصروف ہیں، اتنے کیسز ہیں کہ ایک ٹیم ایک طرف تو دوسری ٹیم دوسری طرف لگی ہوئی ہے۔‘
شیخ وقاص اکرم نے سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی ایک آدمی پارٹی سے اوپر نہیں ہے، اگر کوئی پارٹی میں نہیں ہے تو اس کے بارے میں بات نہیں کرسکتا، میں کیوں اس شخص کے بارے میں بات کروں جو چاہتا ہے کہ اس کے بارے میں بات کی جائے۔ میں آج کوئی تبصرہ کروں گا، پھر جواب آئے گا، پھر تبصرہ ہوگا، پھر جواب آئے گا تو میں بالکل ایسا نہیں چاہتا، تحریک انصاف کو ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا نہیں بلکہ اس سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔‘