ایلون مسک کے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (ڈی او جی ای) کے تحت امریکی حکومت میں تعینات نوجوان انجینئرز کے باعث امریکہ کے سکیورٹی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
سکیورٹی ماہرین کے مطابق، اس سے قبل کبھی بھی کسی غیر تصدیق شدہ اور ناتجربہ کار گروپ کو امریکی حکومت کے اعصابی مرکز تک اس قدر غیر معمولی رسائی نہیں ملی۔
مسک کی ڈی او جی ای ٹیم کے تحت یہ مہم محکمہ خزانہ سے شروع ہوئی، جہاں انہوں نے امریکی حکومت کے ادائیگی کے نظام پر کنٹرول حاصل کیا—اس اقدام کو عوامی اخراجات کی نگرانی کے طور پر جواز فراہم کیا گیا۔
اس کے بعد، اس کا دائرہ ایک بے مثال کفایت شعاری مہم تک پھیل گیا، جس میں سافٹ ویئر انجینئرز مختلف وفاقی اداروں میں تعینات ہو کر کمپیوٹر سسٹمز کا کنٹرول سنبھالتے گئے۔
انہوں نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ)، محکمہ تعلیم اور جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن (جی ایس اے) جیسے اہم اداروں کی سرگرمیوں میں خلل ڈالا، اور بعض جگہوں پر انہیں تقریباً مفلوج کر دیا۔ جی ایس اے امریکی حکومت کے بنیادی ڈھانچے اور سرکاری عمارات کے انتظام کا ذمہ دار ادارہ ہے۔
ہارورڈ کینیڈی سکول کے سکیورٹی ماہر بروس شنائر اور ڈیٹا انفراسٹرکچر کمپنی انرپٹ کے ڈیوے اوٹن ہائیمر نے فارن پالیسی میں لکھا، ’محض چند ہفتوں میں، امریکی حکومت کو اپنی تاریخ کی سب سے سنگین سکیورٹی خلاف ورزی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
محکمہ خزانہ کی وہ شاخ جو تمام وفاقی ادائیگیوں کی نگرانی کرتی ہے، بیورو آف فسکل سروسز، اس وقت خاص طور پر سنگین صورت حال سے دوچار ہے، کیونکہ یہ امریکی معیشت کے ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔
ایک آزاد کنٹریکٹر کی اندرونی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ڈی او جی ای ٹیم کو دیا گیا رسائی کا اختیار ’بیورو کی تاریخ میں اندرونی خطرے کا سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے۔‘
یہ کمپیوٹر سسٹمز دنیا کے سب سے پیچیدہ اور حساس سسٹمز میں شمار ہوتے ہیں۔
تاہم، ڈی او جی ای ٹیم میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جن کا تعلق مسک کی کمپنیوں سے ہے، یا وہ ایسے نوجوان ٹیکنیکل ماہرین ہیں جن کی عمریں 20 سال تک ہیں—جن میں سے تقریباً کسی کو بھی نہ تو باضابطہ جانچ پڑتال سے گزارا گیا اور نہ ہی ان کے پاس حکومتی تجربہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسک خود ایک منتخب عہدیدار نہیں ہیں، لیکن ان کے کاروباری مفادات پر سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، کیونکہ ان کی کمپنیاں کئی بڑے حکومتی معاہدے رکھتی ہیں۔ یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ کہیں انہیں حساس ڈیٹا تک رسائی ملنے سے ان کی کاروباری سلطنت کو مزید فائدہ نہ پہنچے۔
دریں اثنا، وہ سرکاری ملازمین جو ان سسٹمز پر دہائیوں کا تجربہ رکھتے ہیں، انہیں دفاتر میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے اور ڈی او جی ای کی ٹیم انہیں ہٹا رہی ہے۔ اس سے ان ماہرین میں شدید تشویش پیدا ہو گئی ہے جو حکومتی ٹیکنالوجی کی پیچیدگیوں اور اس کے کمزور پہلوؤں سے واقف ہیں۔
امریکی حکومت کے انسانی وسائل کے محکمے آفس آف پرسنل مینجمنٹ میں ڈی او جی ای ٹیم کے افراد نے ایک ایسے سرور کو نیٹ ورک سے جوڑ دیا جس کی اجازت نہیں تھی اور امریکی شہریوں کے ذاتی ڈیٹا پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) سافٹ ویئر کا استعمال شروع کر دیا، جو وفاقی رازداری قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس حکومتی مداخلت کے خلاف متعدد مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں، جن کے باعث ڈی او جی ای ٹیم کو کچھ معاملات میں پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ ایک عدالتی سماعت میں، ایک ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکار نے تسلیم کیا کہ ایک ڈی او جی ای ملازم کو مکمل سسٹم رسائی نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، سکیورٹی میں ایک اور سنگین غلطی یہ ہوئی کہ سی آئی اے نے پوری خفیہ ایجنسی میں حالیہ دو سال میں بھرتی کیے گئے افراد کی فہرست، ایک ایسی ای میل کے ذریعے بھیج دی جو خفیہ نہیں تھی۔ یہ اقدام ڈی او جی ای ٹیم کی سربراہی میں جاری کفایت شعاری مہم کے تحت کیا گیا تھا۔
سکیورٹی ماہر شنائر اور اوٹن ہائیمر نے خاص طور پر تجربہ کار اہلکاروں کی برطرفیوں پر تشویش کا اظہار کیا، جو سکیورٹی کے حفاظتی اقدامات کو یقینی بناتے تھے۔
انہوں نے لکھا: ’محکمہ خزانہ کے کمپیوٹر سسٹمز قومی سلامتی پر اس حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ ان کا ڈیزائن ایٹمی لانچ پروٹوکول کے اصولوں کے مطابق کیا گیا ہے، یعنی ان پر کسی ایک فرد کا مکمل اختیار نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا: ’اہم مالیاتی نظام میں تبدیلیاں کرنے کے لیے روایتی طور پر متعدد مجاز افراد کی مشترکہ منظوری اور تعاون درکار ہوتا ہے۔‘
ایلون مسک، جو اپنی ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سرگرم رہتے ہیں، اکثر سرکاری ملازمین کو یا تو نااہل قرار دیتے ہیں یا سیاسی طور پر جانبدار—یعنی ایک ’ڈیپ سٹیٹ‘ جو ڈیموکریٹس کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ٹرمپ کی مخالفت کر رہی ہے۔
غلطیوں کے خطرے نے سائبر سکیورٹی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جن میں مائیکل ڈینیئل بھی شامل ہیں، جو سابق صدر براک اوباما کے دور میں وائٹ ہاؤس کے سائبر سکیورٹی کوآرڈینیٹر رہ چکے ہیں اور اس وقت سائبر تھریٹ الائنس کے سربراہ ہیں۔
ڈینیئل نے خبردار کیا: ’چین، روس اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیاں امریکی حکومت کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی بہترین ٹیمیں تعینات کرتی ہیں، اور وہ کسی بھی موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ مفروضہ کہ وفاقی حکومت میں کام کرنے والے تمام افراد نالائق اور نااہل ہیں، اور یہ کہ کسی کو بھی یہ کام سونپ دینا کوئی مسئلہ نہیں... یہ بالکل غلط سوچ ہے۔
’حکومتی نظام میں ہر چیز بظاہر واضح نہیں ہوتی، اور بعض مسائل کو سمجھنے کے لیے تجربہ درکار ہوتا ہے۔‘
دریں اثنا، سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور روس، جو طویل عرصے سے ان حساس سسٹمز کو نشانہ بناتے رہے ہیں، محض چند گھنٹوں میں کی گئی غلطیوں اور کمزوریوں کو آنے والے برسوں تک اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
سابق ایف بی آئی آپریٹو اور سائبر سکیورٹی فرم نیکسیشور کے ماہر ایرک او نیل نے اے ایف پی کو بتایا: ’ اگر ہر مرحلے میں سائبر یکیورٹی کو اولین ترجیح نہ بنایا جائے، تو اس سے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور جدید سائبر مجرموں کے لیے دروازے کھل سکتے ہیں۔‘