پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار سے تعلق رکھنے والے 80 سالہ بزرگ حافظ ممتاز علی 1965 سے ریڈیو سننے کا شوق رکھتے ہیں۔
وہ اپنی جوانی سے لے کر آج تک ریڈیو سنتے آ رہے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس درجنوں ریڈیو ڈیوائسز موجود ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں استعمال کیے ہیں، جن میں جاپانی، ہالینڈ میڈ اور تائیوانی پائیدار ریڈیو سیٹ سرفہرست ہیں۔
دنیا میں ہر سال 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے حافظ ممتاز علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اپنے والد کو ریڈیو سننے سے مجھے بھی ریڈیو سننے کا شوق پڑا اور یہ شوق آج بھی جاری ہے، میں 60 سال سے ریڈیو سنتا آ رہا ہوں مگر اب کسی ایسے ریڈیو سٹیشن کا منتظر رہتا ہوں جہاں پروگرام کی آواز صاف ہو، اور پاکستان میں کوئی ایسا سٹیشن نہیں ہے۔ البتہ انڈیا کے سٹیشن پاکستان میں صاف چلتے ہیں۔‘
بقول حافظ ممتاز علی: ’میں نے پرانے زمانے کے ریڈیو سیٹ محفوظ کر کے رکھے ہیں، جن سے میری بچپن، جوانی اور عمر رفتہ کی یادیں وابستہ ہیں۔ ان میں ہالینڈ، جاپان اور تائیوان کے بنائے گئے ریڈیو ڈیوائسز بھی ہیں، جو آج بھی اصل حالت میں صحیح چلتے ہیں۔
’لیکن ریڈیو پر اب وہ پرانے پروگرامز، جن میں بہت خوبصورت، سبق آموز ڈرامے، کہانیاں، کھیل و ثقافت اور حالاتِ حاضرہ کی خبریں ہوا کرتی تھیں، سننے کو دستیاب نہیں ہیں۔ پہلے زمانے میں ریڈیو علم، ادب، اخلاقیات اور ثقافت کا درسگاہ ہوا کرتا تھا، اور آج کے موبائل و دیگر ڈیوائسز میں علم اور اخلاقیات نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا: ’مہندر کپور، احمد رشی، نورجہاں، مہدی حسن، محمد رفیق کو سنتا ہوں۔ ابھی ریڈیو آن لائن چلتے ہیں، لیکن مجھے موبائل اور انٹرنیٹ کا شوق نہیں، اور چلانا میرے بس کی بات بھی نہیں ہے۔‘
’خبر بھی سنتا ہوں اور ریڈیو پروگرامز کے ساتھ زیادہ تر انڈیا کے گیت سننا پسند ہے۔ میرے پسندیدہ گیتوں میں انڈیا کے گلوکار مہندر کپور کی آواز میں 'نہ منہ چھپا کے جیو، نہ سر جھکا کے جیو', لتا منگیشکر کی آواز میں 'ہوا میں اُڑتا جائے، میرا لال دوپٹہ ململ کا ہو جی', 'میں ہوں ساقی، تو ہے شرابی شرابی' اور پاکستانی گلوکار مسعود رانا کی آواز میں 'ہم بھی مسافر ہیں، تم بھی مسافر ہیں' شامل ہیں۔‘
حافظ ممتاز علی جیسے دیگر ریڈیو سننے کے شوقین حضرات آج بھی موجود ہیں، مگر ریڈیو کے زوال نے انہیں مایوس کیا ہے۔ خضدار میں واقع ریڈیو ساز گلی میں اب کوئی ریڈیو مرمت ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا میں ریڈیو کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ دونوں ممالک میں ریڈیو نے ثقافت، زبانیں اور موسیقی کو جوڑے رکھا ہے۔
ماضی میں ریڈیو پاکستان نے ہر میدان میں ایک اعلیٰ کردار ادا کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان نے کئی فنکاروں کو بہترین کارکردگی دکھانے پر پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا ہے۔ فلم انڈسٹری اور ٹی وی کے تمام فنکاروں سمیت ادیب اور مصنفوں کو ریڈیو سے تربیت ملی ہے نیز سیلاب میں آگاہی اور جنگی قیدیوں کے لیے پیغامات اہم ذریعہ رہے ہیں۔