9 مئی کو حد کر دی گئی اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آ گئے: جسٹس ہلالی

جمعرات کے روز آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سولینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت جاری رکھی۔

جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے حقوق انسانی کی یادگار کا ایک منظر (نو فروری، 2025، مونا خان/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے جمعرات کو نو مئی کے واقعات میں سزا یافتہ مجرم کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ ’کیا آپ تسلیم کرتے ہیں نو مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟ نو مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں۔‘

سلمان اکرم راجہ نے بینچ کے اس سوال پر عدالت سے کہا کہ ’جی جی میں اس پر عدالت کو بتاتا ہوں، آرٹیکل 184/3 کو محدود نہیں کیا جا سکتا، ملزمان کا آزاد عدالت اور فیئر ٹرائل کا حق ہے۔‘

جمعرات کو آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سولینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

نو مئی کے مجرم کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل پر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’فیئر ٹرائل کے لیے آپ کو آرٹیکل آٹھ تین سے نکلنا ہو گا۔‘

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’آرمی سے متعلق قانون سازی 2015 اور پھر 2017 میں ہوئی تھی، اے پی ایس والے آج بھی انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں۔‘ جسٹس افغان نے ریمارکس دیے ’میرا اشارہ آرمی چیف کی توسیع کی قانون کی طرف تھا۔‘ جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر کہا کہ ’آرمی پبلک سکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی۔‘

کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟

جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ ’فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، فوج میں ایک میڈیکل کور بھی ہوتی ہے، دونوں کور میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے۔‘ جسٹس امین الدین خان نے اس موقع پر کہا کہ یہ تو قانون سازوں کا کام ہے، ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہو گی، یہ کیسے ہوگا ایک فوجی ٹرائل ہو دوسرا ملزم اس سے الگ کر دیا جائے؟

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’الزام لگا کر فئیر ٹرائل سے محروم کر دینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، مجھے خود ایک بہت بڑا کریمنل بنا دیا گیا ہے، مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی عمران خان کے ساتھ سازش کا الزام ہے، اگر قانون کی شقیں بحال ہوتی ہیں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ’آپ کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعات لگی ہوں گی۔

جسٹس امین نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا ’کیا آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگ گئی ہے؟‘ سلمان اکرم راجہ نے جواباً کہا ’میرے کیس کو چھوڑیں، نظام یہ ہے الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاؤ۔‘

’ایسا نہیں ہے کہ کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے‘

جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سے کہا ’ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے، عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کے خلاف تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کیے گئے ہیں۔‘

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’بنچ کی جانب سے انڈیا میں کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا، برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائی کورٹ طرز پر تعینات ہونے والے ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو ریفر کر سکتا ہے۔‘

جسٹس امین الدین خان نے جواباً کہا ’ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’مقدمے میں اصل سوال ہے کہ موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں۔‘ سلمان اکرم راجہ نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔‘

’سیاسی جماعت نے اکیسویں آئینی ترمیم کی حمایت کی‘

جسٹس مسرت ہلالی نے سلمان اکرم راجہ سے کہا ’جب 21ویں آئینی ترمیم ہوئی تو اس وقت آپ کی جماعت نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تھی، چلیں یوں کہہ دیتی ہوں ایک سیاسی جماعت نے بھی 21 ویں ترمیم کے تحت ملٹری کورٹس کی حمایت کی۔‘

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا ’میں کسی سیاسی جماعت کی یہاں نمائندگی نہیں کر رہا، اس وقت انہوں نے غلط کیا تھا۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ’یہ کیا بات ہوئی اب اپوزیشن میں آ کر کہہ دیں اس وقت جو ہوا غلط تھا۔‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکیسویں آئین ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’ترمیم میں ایک چیز اچھی تھی کہ سیاسی جماعتوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔‘

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوتے کہا ’ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو شق شامل کی جا رہی ہے اس کا مستقبل میں کیا اثر پڑ سکتا ہے، ایک شق کی وجہ سے سویلینز کو  فوجی عدالتوں میں لے جایا جا رہا ہے، پورا فریم ورک 1962 کے آئین سے مختلف ہو چکا ہے، 1962 اور 1973 کے آئین کے بعد آج کل حالات بہت مختلف ہیں۔

’غداری سے بڑا جرم کوئی نہیں ہم آرٹیکل چھ میں بھی یہ نہیں کہتے کہ اپیل کا حق نہیں ہے، غداری کے مقدمے میں بھی ہائیکورٹ کے تین ججز فیصلہ کرتے ہیں۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دلائل سن کر کہا ’اس کا مطلب یہ ہے کہ قصور نظام کا ہے۔‘

عدالت نے کیس کی سماعت مزید دلائل کے لیے 18 فروری تک ملتوی کر دی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان