وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کو کہا کہ سویلین افراد کا ملٹری ٹرائل کرنے کی تجویز پر اتفاق رائے نہیں تھا اس لیے اس کو آئینی ترامیم کے مسودے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
وفاقی وزیر نے سپریم کورٹ بار کے اجلاس میں آئینی ترامیم سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے اس نے دو تہائی سے ہونا ہے۔ کہا گیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام بھی ہونے جا رہا تھا۔ شروع میں بالکل یہ بات تھی لیکن سویلین کے ملٹری ٹرائل پر اتفاق رائے نہیں تھا وہ ابھی پیکج کا حصہ نہیں ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت کچھ لوگوں نے کہا یہ تجویز ڈراپ کی جائے۔‘
بدھ کے روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار نے آل پاکستان وکلا کے اجلاس کا انعقاد کیا جس میں وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ کو مدعو کیا گیا تاکہ مجوزہ آئینی ترامیم پر ابہام دور کیے جا سکیں اور وکلا کو اعتماد میں لیا جائے۔
تاہم بلوچستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز نے آل پاکستان وکلا اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور شرکت نہیں کی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس میں کہا کہ ’ہم ایک اتحادی حکومت میں ہیں ن لیگ کی اکیلی حکومت نہیں، میں نے بارز اور وکلا کے مطالبات کو سامنے رکھا۔‘
وزیر قانون نے بتایا: ’ہمیں کہا اعداد و شمار سے بتا دیں کتنے دہشت گردی کے ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالتوں سے سزا ہوئی۔ وہاں بےنظیر بھٹو کا قتل کیس بھی سامنے آیا۔ ٹرائل کورٹ سے خبر آئی سہولت کار بری اور پولیس اہلکاروں کو سزا ہو گئی۔ وہاں یہ بات بھی ہوئی کہ راہ حق کے نغموں پر آنسو بہانے سے ہمارے زخم نہیں بھریں گے یہ سخت گفتگو تھی مگر ہم نے کہا اسے سول سائیڈ پر دیکھیں گے۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ایک مکالمہ ہم نے عمومی قوانین میں ترمیم پر کیا پھر آئینی ترامیم پر بات چلی۔ ایک بات یہ آئی کہ آئینی عدالت جو اٹھارہویں ترمیم میں نہ ہو سکی اس پر کام کیا جائے۔ 24 مئی 2024 کو پانچوں بارز کے سربراہان مجھے ملے۔ آئینی عدالت بنیادی حقوق اور مفاد عامہ سے متعلق تھی۔ میثاق جمہوریت سے پہلے عاصمہ جہانگیر نے بھی آرٹیکل 199 کی اپیلیں آئینی عدالت میں لے جانے کی تجویز دی۔‘
وزیر قانون نے مزید کہا کہ ’آرٹیکل 63 اے سے متعلق ترمیم بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک غلط تشریح کی تھی۔ ہم ترمیم لا رہے ہیں کہ ووٹ گنا جائے گا تو نااہلی ہو گی ورنہ نہیں ہو گی۔ جب حکومت سازی ہو رہی تھی پیپلز پارٹی سے مذاکرات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے مطالبات میں عدالتی اصلاحات شامل تھیں۔ یہ ہمارا منشور بھی تھا قائد نواز شریف کی خواہش بھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی ترمیم شامل ہے۔ نو ارکان کے ساتھ ہم چار ارکان پارلیمنٹ شامل ہوں گے۔ وفاق کی سطح پر 13 صوبائی تعیناتیوں پر کمیشن 17 ممبران پر ہو گا۔
’اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں 24 آسامیاں خالی ہیں۔ کیوں یہ آسامیاں خالی ہیں میں نہیں کچھ کہتا۔ اعلی عدلیہ میں کام نہ کرنے والے ججوں کو ہٹا دیا جائے یہ کہنا کیا گناہ ہے؟ ہم نے کہا ہے جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ ججز کی کاکردگی دیکھا کرے گا۔ کمیشن ججز کے مقدمات نمٹانے کی تعداد، عمومی تاثر اور بارز کی رائے دیکھے گا۔ اگر کارکردگی ٹھیک نہ ہوئی تو کمیشن انہیں ہٹا سکے گا۔‘
وفاقی وزیر قانون نے چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’کسی ایک شخص کو نظر میں رکھ کر قانون سازی کو نہ دیکھیں، ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ موجودہ چیف جسٹس ہی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے، یوں مسئلہ بھی حل ہوتا تھا، لیکن ہم نے یہ بات ہی نہیں کی۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے وکلا کے تخفظات پر کہا کہ ’دیکھنا ہے آئینی عدالت کا قیام آئین کے فریم ورک میں ہے یا نہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہو یا 68 سال اس پر میں اوپن ہوں۔ وکلا اپنی کمیٹیاں بنائیں میری رہنمائی کریں۔
عدلیہ پر تنقید بھی ہوئی مگر عدلیہ لوگوں کے حقوق کے لیے کھڑی بھی ہوئی۔ دنیا کے کئی ممالک میں آئینی عدالتوں کا تصور موجود ہے۔‘
وزیر قانون سے آئینی ترامیم کی تفصیلات سننے کے بعد صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے وزیر قانون سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ یہ باتیں پیکج لانے سے پہلے ہم سے شئیر کر لیتے۔ آپ آج جو رائے مانگ رہے ہیں وہ پہلے مانگ لیتے۔‘
سینیئر سپریم کورٹ وکیل و سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے اجلاس میں وزیر قانون کو مشورہ دیا کہ ’کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہ ہو یہ بھی یقینی بنائیں، آئینی عدالت کا سربراہ وزیر اعظم نہ لگائے، آئینی عدالت کا چیف جسٹس چیف الیکشن کمشنر کی طرح لگایا جائے، آئینی ترامیم رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر نہیں ہوتیں، ہم گھر والے تھے ہمیں ہی اعتماد میں لے لیتے۔‘