سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھنا ہو گا: اسد عمر

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور اس کے لیے سیاسی افہام و تفیہم کی ضرورت ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما اسد عمر نے کہا کہ معاملات حل کرنے کے لیے سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھنا ہو گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور اس کے لیے سیاسی افہام و تفیہم کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق: ’سب سے پہلے تو سیاست دان آپس میں بیٹھ کر یہ معاملہ طے کر لیں، بالکل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا، ان کے بغیر آپ جہاں پر پہنچنا چاہتے ہیں آپ نہیں پہنچ سکتے لیکن پہلے سیاست دان اپنے مسائل حل کریں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ بیانیہ تو ’چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ نہ بیٹھنے‘ کا تھا تو اسد عمر نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی الیکشن میں اختلاف کے باوجود سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے امیدوار ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوتے ہیں۔

’تحریک انصاف کو اپنا موقف بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘

انہوں نے اس پر مزید کہا کہ ’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لیے احتساب کا بیانیہ بہت ہی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

اسد عمر نے گذشتہ دنوں ایک مضمون میں ملک کو درپیش سیاسی چیلنجوں کے حل پر بات کی تھی۔ انٹرویو میں اس بارے میں بھی دریافت کیا گیا۔

’بیانیہ جو تحریک انصاف کا ہونا چاہیے اور جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو ان کا نظریہ رہا ہے ہمیشہ سے، ایک ایسا انصاف کا نظام ہو جس میں آپ نے چوری کی ہو تو آپ نہ بچیں، میں نے چوری کی ہو تو میں نہ بچوں۔  کوئی بنیادی فرق نہیں ہے نظریے کے اندر صرف جس طریقے سے نظریہ بیان کیا جاتا ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘

جب ان سے احتجاج کی سیاست اور مسائل حل کرنے کے لیے پارلیمان کے کردار کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’پارلیمان جو ہے وہ بے معنی ہوچکی ہے، یہ تو جتنی بےتوقیر پارلیمان ہے ایسی ضیا الحق کے دور میں جو ہوتی تھی مجلس شوریٰ اس کے بعد سے، شاید اتنی بےتوقیر پارلیمان گزری ہو۔‘

اسد عمر نے مزید کہا کہ پارلیمان پہلے بھی پاکستان میں سیاسی مسائل کا حل نہیں رہا ہے۔

’سیاسی بڑے بڑے فیصلے پارلیمان کے باہر ہوتے رہے ہیں، جو غیرسیاسی قوتیں ہیں وہ تو ظاہر ہے باہر ہوتی ہیں۔ سیاست دان بھی اپنے بڑے بڑے فیصلے پارلیمان کے اندر نہیں کرتے تو اس وقت آپ دیکھ لیں ہو کیا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نظام اتنا طاقت ور ہوتا ہے جتنے اس کے ادارے طاقت ور ہوتے ہیں۔

سابق وزیر نے اپنی بات کی تاویل دیتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمان کمزور ہے، وہ ادارہ جب تک مضبوط نہیں تو شخصیت جتنی بھی مضبوط ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شخصیت تو ذوالفقار علی بھٹو کی بھی مضبوط تھی، شخصیت عمران خان کی بھی مضبوط ہے، کتنی مضبوط آپ کو جمہوریت نظر آرہی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ سیاست دان بھی بیان یہی دیتے ہیں کہ فوج کا عمل دخل سیاست میں نہیں ہونا چاہیے۔

’لیکن حقیقت یہ رہی ہے کہ سیاست دان کا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ فوج کا عمل دخل ہو لیکن میرے حق میں ہو۔‘

جب سابق پی ٹی آئی رہنما سے سوال کیا گیا کہ وہ بھی حکومت کا حصہ رہے ہیں، ان کی سابقہ جماعت اور بطور وزیر ان سے کیا کوتاہیاں ہوئیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان سے بھی کوتاہیاں ہوئی ہیں اور ہر حکومتی شخص سے ہو جاتی ہیں۔

’ہم پاکستان کی اچھائی چاہتے ہیں۔ ہمارے سیاسی مخالفین جو ہیں وہ پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کرتے رہے ہیں جس سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے اور ان کی جڑیں اس نظام میں بہت مضبوط ہیں۔

’ان کو اس نظام سے ہٹانا، جس کو انہوں نے جکڑا ہوا۔ اس میں جس کی مدد لگتی ہے لینی چاہیے اور آپ مدد لے رہے ہیں ملک کی بہتری کے لیے۔‘

اسد عمر سے جب پوچھا گیا کہ اگر پی ٹی آئی اقتدار میں واپس آئی تو کون سی پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

’اس پر انہوں نے کہا کہ ان کی سیاست میں مداخلت کو ختم کیا جائے اور ایسے نہیں کہ کوئی ٹکراؤ کے صورت میں بلکہ عمل کی صورت میں جس میں قومی مفاہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اسد عمر کا کہنا تھا ان کے خیال میں نئے الیکشن کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ’عوام نہیں سمجھتے انہوں نے جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں ان کو ووٹ دیا ہے۔‘

تحریک انصاف میں اختلافِ رائے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مختلف آرا اور گروپ ہر سیاسی پارٹی میں ہوتے ہیں۔

’مخلتف آوازیں ہیں جو پہلے بھی تھیں، فرق صرف اتنا ہے کہ تحریک انصاف میں آپ کو زیادہ سننے کو مل رہا ہے۔ اس کہ وجہ یہ ہے کہ پہلے کمرے میں ایک شخص ہوتا تھا، سب بیٹھتے تھے، اپنی اپنی رائے دیتے تھے، وہ شخص سن کر فیصلہ کر دیتا تھا کہ اچھا ٹھیک ہے یہ ہم فیصلہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ شخص عمران خان تھا۔

’بات ختم ہو جاتی تھی، بات کمرے کے اندر ہو کر ختم ہوتی تھی، اب وہی باتیں ٹی وی پر ہو رہی ہیں، جسلوں کے اندر ہمیں نظر آ رہی ہیں، وہ اختلاف جو ہے۔‘

انہوں نے ترسیلات زر نہ بھیجنے کی اپیل کی وجہ جمہوری نظام میں کمزوری کو قرار دیا۔

’تحریک انصاف سڑکوں پر کیوں ہے؟ تحریک انصاف ایسی کال کیوں دے رہی ہے کہ بیرون ملک سے رقوم نہ بھیجی جائیں کیوں کہ جمہوری نظام چل نہیں رہا۔‘

جب پوچھا گیا کہ کیا نو مئی کے واقعات ایک غلطی تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’نو مئی ہوا کیوں؟ میں بول رہا ہوں اس کی جڑ تک پہنچیں، تحریک انصاف سڑکوں پر تھی ہی کیوں؟ عمران خان کو اس طریقے سے گرفتار کیا کیوں جا رہا تھا؟

’کیوں کہ سیاسی نظام آپ کا بریک ڈاؤن کر گیا ہے، اس لیے یہ سب ہو رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’آپ سیاسی جماعت کے فیصلوں پر تنقید کر سکتے ہیں، لیکن آپ پاکستان کے عوام سے تو نہیں لڑ سکتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی الزام لگے لیکن نظام اور جہمہوریت دونوں چلتے رہے۔

جب ان سے بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہ ’بنیادی حل سیاسی ہی ہو گا، سیاسی حل میں عسکری ایک چھوٹا حصہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’سیاسی حل تب ہی نکلے گا جب قومی اتفاق رائے ہو گا۔ وفاق کی جماعتیں، بلوچستان کی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھ کر ایک آواز میں بات کریں گی۔‘

انہوں نے اس حوالے سے فاٹا کے انضمام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ساری قومی لیڈرشپ نے اتفاق کیا۔ عسکری اور سیاسی لیڈرشپ ایک پیج پر آئی۔‘

ان کے مطابق پاکستان کے ایسے مسائل کا حل صرف ایک سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے، اس میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست