خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں پولیس کے مطابق ملاکنڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو طالبہ سے ’زبردستی شادی‘ کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مقدمے کے مطابق یہ واقعہ ضلع لوئر دیر کے علاقے چکدرہ میں واقع ملاکنڈ یونیورسٹی کی حدود سے باہر ضلع ملاکنڈ کے علاقے ہیبت گرام میں ایک گھر میں پیش آیا ہے۔
یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365 بی (زبردستی شادی یا جنسی ہراسانی کے لیے خاتون کو اغوا کرنا)، دفعہ 452 (کسی کے گھر زبردستی گھسنا)، 354 (کسی خاتون کی عزت پر حملہ) اور دفعہ 506 (کسی کو دھمکانا) کے تحت درج کیا گیا ہے۔
ملاکنڈ یونیورسٹی ملاکنڈ ڈویژن کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی ہے جہاں تقریباً سات ہزار تک طلبہ زیر تعلیم ہے۔
یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چھٹے سمسٹر کی طالبہ کی مدیعت میں درج مقدمے میں طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ ’شعبہ مطالعہ پاکستان کے پروفیسر کئی مہینوں سے میرے پیچھے پڑے تھے اور مختلف طریقوں سے مجھے تنگ اور ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
چار فروری کو درج مقدمے کے مطابق: ’یہ بات میں نے خاندان والوں سے پوشیدہ رکھی تھی۔ تقریباً تین مہینے پہلے میری منگنی کسی اور لڑکے سے ہوگئی جس پر پروفیسر کو رنجش تھی اور مذکورہ پروفیسر مختلف طریقوں سے میری نگرانی اور معلومات حاصل کرتے تھے۔‘
طالبہ نے پولیس کو بتایا ہے کہ ’اس بات کی زبانی طور پر یونیورسٹی کے پرووسٹ کو شکایت بھی کی تھی۔‘
حالیہ واقعے کے حوالے سے مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ ’میں گھر میں موجود تھی کہ پروفیسر تقریباً دوپہر تین بج کر 30 منٹ پر میرے گھر آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر میرے ساتھ زبردستی ’ناجائز شادی رچانے‘ کی کوشش کی۔
’میری چیخ و پکار پر گھر والے باہر نکلے اور ملزم مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر فرار ہو گئے۔‘
طالبہ کا یونیورسٹی وائس چانسلر کو خط
طالبہ نے اس حوالے سے پانچ فروری کو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) بھی لکھا تھا۔
انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ پروفیسر اپنی اہلیہ سمیت ذاتی گاڑی میں ان کے گھر آئے تھے تاہم درج مقدمے اور اس خط کے بعض مندرجات میں تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ایف آئی آر میں پروفیسر کا اپنی اہلیہ ہمراہ آنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’پروفیسر کئی مہینوں سے پستول دکھا کر طالبات سے ناجائز مطالبات کرتے رہے ہیں۔‘
یونیورسٹی کا کیا موقف ہے؟
یونیورسٹی سے جاری مراسلے کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد پروفیسر کو معطل کر دیا گیا ہے۔
مراسلے کے مطابق پروفیسر اس واقعے کی تفتیش مکمل ہونے یا 90 روز تک معطل رہیں گے اور ان کو یونیورسٹی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کے ترجمان میراج الحمید نے انڈپینڈناٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی ’غیر جانب دارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے اور تمام دستاویزی شواہد کی روشنی میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔‘
میراج الحمید کا کہنا ہے کہ ’تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمنسٹریشن آصف رحیم اور اے آئی جی پولیس سونیا شمروز پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کا بھی اعلان کیا ہے جو 15 روز کے اندر تفتیش مکمل کر کے رپورٹ جمع کرے گی۔‘
اس کمیٹی کو ضلعی پولیس سربراہ لوئر دیر اور ڈپٹی کمشنر لوئر دیر انتظامی معاونت فراہم کریں گے جبکہ کمیٹی مذکورہ واقعے کی جگہ کا دورہ بھی کرے گی۔
دوسری جانب ضلع لوئر دیر کے اعلی پولیس عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’ملزم نے اپنے بیان میں ذکر کیا ہے کہ یہ شادی کا معاملہ تھا تاہم اس بات کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔‘