مجھے وہ دن یاد ہے جب میں نے مغربی کنارے جانے کی کوشش کی تھی۔ یہ نومبر 2018 کی بات ہے۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ شاید، بس شاید، اس بار کچھ مختلف ہو۔
میں کئی سال پہلے غزہ چھوڑ چکا تھا۔ کہیں اور نئی زندگی شروع کی۔ میرے پاس برطانوی پاسپورٹ تھا۔ شاید وہ مدد کرتا، شاید اس کا مطلب یہ ہوتا کہ میں صرف ایک فرد نہیں ہوں، کسی ایسے نظام میں جو میرے جیسے لوگوں کو مٹانے کے لیے بنایا گیا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سرحد پر اسرائیلی اہلکار نے میرے پاسپورٹ پر سرسری نظر ڈالی، لیکن اس کی نظریں فوراً میری جائے پیدائش پر جا ٹکیں۔ ’غزہ‘، وہ دھیرے سے بڑبڑایا اور بس یونہی دروازے بند ہو گئے۔
اسرائیلی اہلکار نے میرا پاسپورٹ ایک اور فوجی کے حوالے کر دیا جن کا لہجہ برطانوی تھا۔ ان کی آنکھوں میں وہی بےحسی تھی، جو میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔
’تمہیں اجازت درکار ہے۔‘ انہوں نے سرد مہری سے کہا۔
میں نے پوچھا کہ اجازت کیسے ملے گی۔ انہوں نے مڑا تڑا سا کاغذ کا ٹکڑا تھما دیا جس پر ایک ای میل ایڈریس اور فون نمبر لکھا تھا۔ بس اتنا ہی۔ نہ کوئی وضاحت، نہ کوئی طریقہ کار، نہ کوئی باضابطہ کارروائی۔ بس ایک بےوقعت سا کاغذ، جیسے میرے آنے جانے کے حق کو، اپنی ہی زمین پر قدم رکھنے کے حق کو، لاپروائی سے جھٹک دیا گیا ہو۔
میں نے وہ فون نمبر سو بار ملایا۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے دیے گئے ای میل ایڈریس پر لکھا۔ ای میل واپس آ گئی۔ بس، کہانی یہیں ختم ہو گئی۔
میرا سفر، جہاں میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملتا، اس شہر میں چلتا جس پر میرا اتنا ہی حق تھا جتنا کسی اور کا، ایک لمحے میں ختم کر دیا گیا۔
مجھے اس لیے داخلے کی اجازت نہیں ملی کہ میں نے کوئی غلط کام کیا تھا۔ مجھے اس لیے روکا گیا کیونکہ میں موجود تھا۔
کیوں کہ ان کی نظر میں، میں ایک ایسا انسان نہیں جس کے حقوق ہوں، جس کی کوئی تاریخ ہو، جس کا کہیں سے کوئی تعلق ہو۔ میں بس ایک مسئلہ ہوں جسے سنبھالنا ہے، ایک درد سر ہوں جسے قابو میں رکھنا ہے۔
یہی فلسطینی ہونے کا مطلب ہے۔ یہ جاننا کہ جس زمین کو تم گھر کہتے ہو، وہ تمہارے لیے چھونا بھی ممنوع ہے۔ یہ احساس لے کر جینا کہ چاہے تم غزہ کی کھلی جیل سے نکل بھی جاؤ، اس کی دیواریں تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
ناکے، کاغذی کارروائیاں، نہ ختم ہونے والی، بے معنی بیوروکریسی۔ یہ سب تحفظ سے متعلق نہیں۔ اس کا تعلق قابو پانے کے ساتھ ہے۔ یہ لوگوں کو توڑنے، انہیں تھکانے، انہیں مایوس کرنے کے لیے ہے، یہاں تک کہ وہ ہار مان لیں، یہاں تک کہ وہ کوشش کرنا چھوڑ دیں، یہاں تک کہ وہ معدوم ہو جائیں۔
مگر تاریخ ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستانوں سے بھری ہے جنہیں اپنے گھروں کو لوٹنے کا حق نہیں دیا گیا۔ جن سے ان مقامات پر جینے کا حق چھین لیا گیا جہاں کبھی وہ بستے تھے۔
غزہ کے شمال میں جبلیہ کے علاقے میں واقع میرا میرا خاندانی گھر اب ملبے کا ڈھیر بن چکا۔
مجھے شکرگزار ہونا چاہیے کہ میرے گھر والے اسرائیل کی 15 ماہ کی مسلسل بمباری میں زندہ بچ گئے۔ انہوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا، محفوظ پناہ گاہ، کھانے، اور پانی کی تلاش میں نکلے لیکن تحفظ کہیں نہیں تھا۔ کھانا اور پانی نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ بس نڈھال ہو چکے تھے۔
اور پھر جنگ بندی ہو گئی۔
مگرسکون کا یہ لمحہ بہت مختصر رہا کیوں کہ جب وہ واپس پہنچے تو تباہی ان کی منتظر تھی۔ جو جگہ کبھی گرمجوشی، محبت اور یادوں کا مرکز تھی، وہ راکھ میں بدل چکی تھی۔
جب وہ جلی ہوئی باقیات کے سامنے کھڑے تھے، تو وہ صرف ایک تباہ شدہ عمارت کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی کے نقصان کو دیکھ رہے تھے۔ وہ دیواریں، جنہوں نے ان کی ہنسی، بچپن، اور زندگی کے سنگ میل سنبھالے۔ سب مٹی میں مل چکا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ تحفظ کا کمزاور سا احساس بھی مٹ گیا جسے بچانے کے لیے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔
اب وہ ان لاکھوں فلسطینیوں میں شامل ہو چکے ہیں جن کے پاس کوئی گھر نہیں بچا۔ وہ ملبے میں گھوم رہے ہیں، پناہ کی تلاش میں، اس زمین پر جہاں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
یہ سب سمجھ سے باہر ہے۔ اور میرے لیے یہ درد ناقابل برداشت ہے۔ وہ گھر، جہاں میں پیدا ہوا، جہاں میں پلا بڑھا، جہاں میرے خاندان نے اپنی زندگی بنائی، اب وہ نہیں رہا۔
میرا خاندان بکھر چکا ہے۔ وہ کسی طرح بھیڑ والے عارضی کمروں میں اجنبیوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ کچھ کو خیموں میں پناہ لینا پڑی ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے۔
یہ ایک ایسا غم ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسی ناانصافی ہے جو انسانی فہم سے باہر ہے۔
ہولوکاسٹ کے بعد، جب دنیا پہلے ہی یورپ کے یہودیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی تھی، ان میں سے بہت سے جو زندہ بچے تھے، وہ اپنے گھروں لوٹنا چاہتے تھے، جن سے انہیں زبردستی نکال دیا گیا۔
انہوں نے پیرس میں اپنے اپارٹمنٹس پر اجنبیوں کو قابض پایا جو وہاں سے نکلنے کو تیار نہیں تھے۔
انہوں نے ان گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے جہاں ان کے خاندان نسلوں سے رہتے آئے تھے مگر جواب میں بےحسی ملی، اور بعض اوقات کھلی دشمنی۔
انہیں دوٹوک انداز میں کہا گیا کہ ’یہ اب تمہارا نہیں رہا۔ کہیں اور چلے جاؤ۔‘ ثبوت کی کوئی تعداد، کوئی سرکاری کاغذات، کوئی التجا، کچھ بھی اس گھر، اس پہچان، اس گھر، ملکیت کی چوری کو واپس نہیں دلا سکتی تھی۔
جب آپ کو ناپسندیدہ سمجھا جائے۔ ناقابل تصور تکلیف سہنے کے بعد بھی یہ سننا کہ تمہاری دنیا سے مٹا دی گئی ہے۔ تمہارا گھر اب تمہارا نہیں رہا۔ تمہاری موجودگی محض ایک مسئلہ ہے۔ ایک مسئلہ، جسے بس بےنیازی سے جھٹک دیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں اس دن کے بارے میں اکثر سوچتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس فوجی نے مجھے کیسے دیکھا۔ نہ غصے سے، نہ دشمنی سے، بلکہ مکمل بےحسی کے ساتھ۔
یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انہوں نے یہ پہلے بھی کیا اور وہ یہ دوبارہ کریں گے۔
میں اس کے لیے بس ایک اور فلسطینی تھا جسے واپس بھیجا جانا تھا۔ ایک اور زندگی جو اس قبضے کے ہاتھوں تبدیل ہو گئی۔ یہ قبضہ دہائیوں سے اپنی بے رحمی کو مکمل کرنے میں مصروف ہے۔
اور پھر بھی، یہ کہانی کچھ بھی نہیں۔ یہ لاکھوں میں سے محض ایک انکار ہے۔ یہ غزہ کے دکھوں کی صرف ایک مثال ہے۔ یہ وہی کہانی ہے جو آج بھی دہرائی جا رہی ہے مگر اس بار مفادات کہیں زیادہ ہیں۔
بمباری سے تباہ شدہ گھر، بھوک سے مرتے لوگ، ملبے میں تبدیل ہوتے اسپتال، یہ سب اسی منطق کے تحت ہو رہا ہے۔
ایک ایسا نظام جو زندگی کو ناممکن بنانے کے لیے بنایا گیا۔ جو ہر فلسطینی کو یہ محسوس کرائے کہ وہ اکیلا ہے۔ یہ کہ اس کا دکھ بس ایک حادثہ ہے۔ جنگ کا افسوسناک نتیجہ ہے۔ جب کہ حقیقت میں یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔
آج امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، سعودی عرب میں غزہ کے مستقبل پر بات چیت کے لیے موجود ہیں۔
ٹرمپ کا نام نہاد منصوبہ۔ فلسطینیوں کو بےدخل کرکے انہیں پڑوسی ممالک میں منتقل کرنا، اور ساحلی زمین کو ’مشرق وسطیٰ کے سیاحتی مقام‘ میں تبدیل کرنا بھی پچھلے تمام منصوبوں کی طرح ناکام ہوگا۔ کیوں کہ فلسطینی ہمیشہ سچائی کو سمجھتے رہے ہیں۔ یہ کبھی امن کے لیے نہیں تھا۔ یہ ہمیشہ مٹانے کے لیے تھا۔ ہر تاخیر، ہر رکاوٹ، ہر وہ مڑا تڑا کاغذ جو حق کے بدلے تھمایا جاتا ہے۔ یہ سب اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
اس دن میں مغربی کنارے نہیں جا سکا۔ اور شاید مجھے کبھی جانے کی اجازت نہ ملے۔ لیکن ایک بات میں یقین سے جانتا ہوں کہ ہم مٹنے والے نہیں۔ کوئی دیوار، کوئی ناکہ، کوئی نسل پرستانہ نظام، کوئی بربریت ہماری شناخت کو ختم نہیں کر سکتی۔ ایک دن، دنیا کو اس سچائی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent