غزہ پر عرب ممالک کی تجاویز سننے کے منتظر ہیں: امریکی وزیر خارجہ

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے عرب ملکوں کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل کہا کہ امریکہ غزہ پر عرب ریاستوں کی طرف سے نئی تجاویز سننے کا منتظر ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو 10 فروری 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی محکمہ خارجہ کی عمارت میں مصری وزیر خارجہ بدر  عبد العاطى سے ملاقات کے دوران (اے ایف پی)

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کو کہا ہے کہ امریکہ غزہ پر عرب ریاستوں کی طرف سے نئی تجاویز سننے کے لیے منتظر ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جمعرات کو جرمنی روانہ ہوئے جہاں وہ یوکرین جنگ پر میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور اسرائیل جائیں گے۔ 

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا یہ دورہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے وزیر خارجہ کے درمیان واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر بات چیت کے بعد ہو رہا ہے۔

مارکو روبیو نے عرب ریاستوں کے بارے میں کہا کہ ’امید ہے کہ وہ صدر کو پیش کرنے کے لیے واقعی ایک اچھا منصوبہ بنانے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کلے ٹریوس اور بک سیکسٹن کے ریڈیو شو کو بتایا کہ ’ابھی واحد منصوبہ -- وہ اسے پسند نہیں کرتے -- لیکن واحد منصوبہ ٹرمپ کا منصوبہ ہے۔ لہذا اگر ان کے پاس کوئی بہتر منصوبہ ہے تو اب اسے پیش کرنے کا وقت ہے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پڑوسی ممالک مصر اور اردن کو غزہ میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قبول نہ کرنے کی صورت میں نتائج سے خبردار کیا ہے۔  

روبیو نے کہا کہ ’یہ تمام ممالک کہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی فلسطینی کو نہیں لینا چاہتا۔ ان میں سے کسی کی بھی غزہ کے لیے کچھ کرنے کی تاریخ نہیں ہے۔‘

اردن پہلے ہی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مصر ہفتوں کے اندر ٹرمپ کا متبادل پیش کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔

مصری تجویز میں غزہ میں ایک نئی سکیورٹی فورس کو تربیت دینا اور مقامی فلسطینی رہنماؤں کی شناخت کرنا شامل ہے جو انچارج ہوں گے۔

روبیو نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ عرب ریاستیں ’نیک نیتی سے کام کر رہی ہیں‘ لیکن ایک سرخ لکیر یہ ہے کہ حماس کے لیے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر خطے کے ممالک اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں، تو اسرائیل کو یہ کرنا پڑے گا اور پھر ہم وہاں واپس آجائیں گے جہاں ہم تھے۔‘

حماس

فلسطینی تنظیم حماس نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ مزید تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جس سے غزہ کی پٹی میں فائر بندی معاہدے سے متعلق ایک بڑے تنازعے کو حل کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

اس سے قبل، حماس نے کہا تھا کہ اسرائیل فائر بندی معاہدے کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہا، جن میں پناہ گاہیں اور خیمے فراہم کرنا شامل ہے، اور اس کے باعث قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی دھمکی دی گئی تھی۔

اسرائیل نے، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے، خبردار کیا تھا کہ اگر قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ دوبارہ حملے شروع کر دے گا، تاہم حماس کے بیان پر اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

حماس کے اس اعلان سے فائر بندی معاہدے کو برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، اس فائر بندی کے طویل مدتی استحکام پر شکوک و شبہات برقرار ہیں۔

جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے غزہ کی سرحد کے قریب فوج کے سدرن کمانڈ ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ عسکری اور سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات کی۔

حماس نے کہا کہ اس کے قاہرہ میں مصری حکام کے ساتھ مذاکرات ہوئے، اور وہ قطر کے وزیر اعظم سے بھی رابطے میں ہے تاکہ غزہ میں مزید پناہ گاہوں، طبی سامان، ایندھن اور ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ گروپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ثالثوں نے ’تمام رکاوٹیں دور کرنے‘ کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اس اعلان کے فوراً بعد، حماس کے ترجمان عبد اللطیف القانوع نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ فائر بندی معاہدے کے تحت تین قیدی ہفتے رہا کر دیے جائیں گے۔

مصر کے سرکاری ٹی وی قاہرہ ٹی وی نے، رپورٹ دی کہ مصر اور قطر نے اس تنازعے کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ دونوں عرب ممالک حماس کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے فائربندی معاہدے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، جو جنوری میں نافذ ہوا تھا۔

مصری میڈیا نے ایسے مناظر بھی نشر کیے جن میں رفح کراسنگ پر مصری علاقے میں عارضی رہائش گاہیں لے جانے والے ٹرک اور بلڈوزرز دکھائی دے رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، یہ ٹرک اسرائیلی معائنے کے بعد غزہ میں داخل ہوں گے۔

وسطی غزہ کے ایک شہری نے جمعرات کو امید ظاہر کی کہ یہ نازک فائر بندی معاہدہ برقرار رہے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہم ایک عام شہری کی حیثیت سے چاہتے ہیں کہ  تنازعہ ختم ہو اور معاہدے پر مکمل عمل درآمد ہو۔ ہم نے اس تنازعے کی بھاری قیمت چکائی ہے، اور امید ہے کہ یہ جلد از جلد ختم ہو جائے۔‘

 فائر بندی کے باوجود قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مظلوم فلسطینیوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔

 غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البُرش کے مطابق فائر بندی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 92  فلسطینی جان سے گئے اور 800  سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

فائر بندی کے اگلے مراحل کے حوالے سے اب بھی بڑی مشکلات درپیش ہیں۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلے کی مدت مارچ کے آغاز میں مکمل ہو رہی ہے، اور ابھی تک دوسرے مرحلے پر کوئی بامعنی مذاکرات نہیں ہوئے، جس میں حماس باقی درجنوں قیدی رہا کرے گی اور اس کے بدلے تنازعہ ختم ہو گا۔

ٹرمپ کے اس متنازع منصوبے نے بھی فائر بندی کے مستقبل کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے، جس کے تحت 20  لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر کے دیگر ممالک میں بسانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسرائیل کی حکومت نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن فلسطینیوں اور عرب ممالک نے اسے سختی سے مسترد کر دیا ہے، اور کسی بھی فلسطینی مہاجر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ 

انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔

یہ تنازع سات اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوا جب حماس نے 251 افراد کو قیدی بنا لیا تاہم اب تک نصف سے زائد قیدیوں کو مختلف معاہدوں کے تحت رہا کیا جا چکا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحانہ کارروائی میں 48000 سے زائد فلسطینی جان سے گئے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

اسرائیلی حملے سے غزہ کا بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ جنگ کے دوران غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی تھی، اور اگرچہ ہزاروں افراد واپس آئے ہیں، لیکن بیشتر کو اپنے گھروں کی جگہ صرف ملبے کا ڈھیر اور انسانی باقیات ملی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا