پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو دبئی میں سمٹ آف گورنمنٹس سے خطاب میں کہا ہے کہ غزہ میں پائیدار اور مستقل امن صرف اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق دو ریاستوں کے قیام میں ہی پنہاں ہے۔
شہباز شریف نے دوط ریاستی حل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جس کا مطلب ہے کہ ’ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا بنایا جانا، جس کی سرحدیں 1967 سے پہلے جیسی ہوں اور القدس اس کا دارالحکومت ہو۔‘
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے آپریشن کے بعد پائیدار اور انصاف پر مبنی امن قائم ہو گا۔
سمٹ آف گورنمنٹس سے خطاب کے شروع میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ غزہ میں اندوہناک صورت حال کی ہنگامہ خیزیاں ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا اور غزہ میں ہونے والے واقعات میں 50 ہزار سے زیادہ فلسطینی اپنی جانوں سے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ نسل کشی کے اس آپریشن کے بعد غزہ میں پائیدار امن قائم ہو گا۔‘
اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین عرفان الحق صدیقی نے منگل کو دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ غزہ سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے خلاف ایک ایسا ڈرافٹ مرتب کیا جائے، جس میں اس کی سختی سے مذمت کی جائے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا اجلاس منگل کو چیئرمین عرفان الحق صدیقی کی صدارت میں ہوا، جس کے دوران غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان سمیت مختلف معاملات زیر بحث آئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جائے جبکہ امریکہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’ملکیت‘ لے۔ ٹرمپ کی اس تجویز کو عالمی برادری خاص طور پر عرب ممالک کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ پاکستان نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔
منگل کو قائمہ کمیٹی کے چیئرمین عرفان الحق صدیقی نے اجلاس میں شریک دفتر خارجہ کے عہدے دار شہریار اکبر خان کو ہدایت کی کہ ’آپ کل تک سخت الفاظ میں ایک ڈرافٹ بنا کر شیئر کریں جس میں پاکستان غزہ میں ہونے والے مظالم کی مذمت کرتا ہے۔ اس ڈرافٹ میں یقینی بنایا جائے کہ ڈپلومیٹک الفاظ نہ ہوں کیونکہ اس میں سخت الفاظ نہیں ہوتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹرمپ نے غزہ سے متعلق جو بیان دیا ہے، اس کی سختی سے مذمت کی جائے۔‘
اس سے قبل دفتر خارجہ کے عہدے دار شہریار اکبر خان نے بتایا کہ ’فلسطینی سفیر کی جانب سے ہمیں خط موصول ہوا تھا، جس میں غزہ میں نسل کشی سے متعلق بل متعارف کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے مرحلے میں غزہ میں امن و امان کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لیے اقدام اٹھانا تھا اور دوسرے مرحلے پر فلسطین میں مکمل سیز فائر پر غور کرنا تھا۔‘
شہریار اکبر خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ’چار فروری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ غزہ پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کے بعد چھ فروری کو دوبارہ ایک بیان سامنے آیا، جس میں فلسطینی عوام کو عرب ممالک میں آباد کرنے کا کہا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کی جانب سے غزہ کی صورت حال پر متعدد بار بیان جاری ہوا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ سینیٹ سے ایک قرارداد جاری کی جائے۔ اس قرارداد میں غزہ میں ہونے والے سیز فائر کا خیر مقدم کیا جائے۔ قرارداد میں صاف الفاظ میں اس بات پر زور دیا جائے کہ فلسطین کا دارالحکومت القدس شریف ہے۔
بقول شہریار اکبر خان: ’غزہ کے علاوہ مغربی کنارے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے فاکس نیوز چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو ٹرمپ غزہ سے متعلق اپنے منصوبے کو ’مستقبل کے لیے ایک رئیل سٹیٹ ڈویلپمنٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا: ’میں اس کی ملکیت (اونر شپ) لوں گا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کے لیے غزہ کے باہر رہنے کے لیے چھ مختلف مقامات ہو سکتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران میزبان بریٹ بیئر کے اس سوال پر کہ ’آیا فلسطینیوں کو تباہ حال علاقے میں واپس جانے کا حق حاصل ہوگا؟‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا: ’نہیں، وہ نہیں جا سکیں گے کیونکہ انہیں بہت بہتر رہائش ملے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دوسرے الفاظ میں، میں ان کے لیے ایک مستقل جگہ بنانے کی بات کر رہا ہوں کیونکہ اگر وہ ابھی واپس جائیں تو برسوں لگ جائیں گے اور تب بھی وہ (غزہ) قابلِ رہائش نہیں ہو گا۔‘
ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے اپنا یہ منصوبہ پہلی بار چا فرروی کو اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پیش کیا تھا، جس پر فلسطینیوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔