ہری الیکٹرک بسوں سے لاہوری خوش، روٹ پھیلانے کا مطالبہ

یہ بسیں گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے چلتی ہوئی مختلف سٹاپس پر رکتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچتی ہیں اور پھر وہاں سے واپس گرین ٹاؤن ڈپو سٹیشن جاتی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل ہی ان بسوں کا افتتاح کیا تھا جس کے بعد سے یہ ہرے رنگ کی بسیں لاہور کی سڑکوں پر بھاگتی دکھائی دیتی ہیں۔

لاہور کی پہلی الیکٹرک بس میں پیر کو سفر کرنے کا موقع ملا تو سوچا یہ تجربہ آپ کو بھی بتایا جائے۔

یہ بسیں گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے چلتی ہوئی مختلف سٹاپس پر رکتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچتی ہیں اور پھر وہاں سے واپس گرین ٹاؤن ڈپو سٹیشن جاتی ہیں۔

الیکٹرک بس کے آپریشن مینیجر محمد عثمان نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بس مکمل طور پر الیکٹرک ہے۔ اس میں سفر کرنے کے لیے مسافر کو ایک کارڈ کی ضرورت پڑے گی جسے وہ بس کے دونوں داخلی و خارجی راستوں پر لگے ویلی ڈیٹرز پر سکین کریں گے۔‘

ہم نے دیکھا کہ فی الحال بس کے ویلی ڈٰیٹر کسی تکنیکی وجوہات کی بنا پر کام نہیں کر رہے تھے اس لیے بس پر چڑھنے والے مسافر بس میں موجود کنڈیکٹر کو 20 روپے کرایہ دے رہے تھے۔

بس کے آپرییشن مینیجرعثمان کے مطابق معذور افراد کے لیے بس میں چڑھنے کے لیے ریمپ کے علاوہ بس کے اندر بزرگ اور معذور افراد کے لیے دو نشستیں بھی مختص کی گئیں ہیں جنہیں بیٹھنے کے لیے کھولنا پڑتا ہے۔

ان سیٹوں کے ساتھ ہی وہیل چیئر یا بے بی کارٹ کو کھڑا کرنے کے لیے ایک بیلٹ بھی لگی ہے جس کٓے ساتھ آپ بے بی کارٹ یا وہیل چیئر باندھ سکتے ہیں تاکہ وہ چلتی بس میں ساکت رہ سکیں۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بس میں خواتین کے لیے نارنجی رنگ کی مخصوص نشستیں تھیں جبکہ مردوں کے لیے مختص نشستوں کا رنگ ہرا تھا۔ بس میں 80 لوگوں کے سوار ہونے کی جگہ ہے جبکہ بس کی نشستیں صرف 30 ہیں۔

عثمان نے بتایا کہ ’لاہور شہر میں چلنے والی ان بسوں کا گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے لاہور ریلوے سٹیشن تک کا یک طرفہ روٹ 27 کلومیٹر ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بس کو چلانے کے لیے یونیفارم میں ایک ڈرائیور صابر بھٹہ بھی موجود تھے جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ آٹومیٹک بس ہے اور چلانے میں بھی آسان ہے، یہ دھواں بھی نہیں چھوڑتی اور سو فیصد الیکٹرک ہے اور پر سکون ہے۔‘

اس بس میں ہم نے دیکھا کہ خواتین کی حفاظت کے لیے جگہ جگہ سٹکرز بھی چسپاں تھے جن پر خواتین کے احترام اور انہیں پریشان نہ کرنے کے حوالے سے تحریر درج تھی۔ ساتھ ہی ایک ہیلپ لائن نمبر بھی درج تھا جس پر بس میں سوار خواتین کسی پریشانی کی صورت میں کال کر سکتی ہیں۔

بس میں سوار مسافر بھی بس پر سفر کرنے سے خوش دکھائی دیے۔ ان میں سے بیشتر کا کہنا تھا کہ یہ بس آرام دہ ہے اور دیگر بسوں کی نسبت اس میں کم رش ہے۔ جبکہ کچھ مسافروں کو یہ شکایت ہوئی کہ یہ بس اپنا سفر دو گھنٹے میں پورا کرتی ہے اور اس کے سٹاپ بہت کم فاصلے پر ہیں جس سے سفر زیادہ ہو جاتا ہے۔

آپریشن مینیجر عثمان نے بتایا کہ ان بسوں کو چارج کرنے کی سہولت بھی مختلف بس ڈپوز پر دی گئی ہے اور یہ بس ایک چارج میں 250 کلومیٹر تک چل سکتی ہے۔

ان بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرہ سرویلنس بھی موجود ہے جبکہ فون چارجنگ کے لیے پوٹس بھی لگی ہیں۔

پنجاب حکومت کے مطابق الیکٹرک بس ماحول دوست ہے جس کی وجہ سے ’سموگ میں کمی‘ میں مدد ملے گی۔

انتظامیہ کے مطابق الیکٹرک بس سروس کے پائلٹ پراجیکٹ پر لاہور سٹیشن سے گرین ٹاؤن روٹ پر 17 ہزار مسافر روزانہ سفر کر سکیں گے،  الیکٹرک بس کے لیے مخصوص ایپ سے ٹریکنگ ممکن ہو گی۔ الیکٹرک بس کے لیے گرین ٹاؤن ہمدرد چوک ڈپو میں نو مخصوص چارجنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

پنجاب حکومت کے مطابق ریلوے سٹیشن تا گرین ٹاؤن روٹ پر 42 جدید ترین بس شیلٹر قائم ہوں گے اور ہر دو منٹ کے بعد بس آئے گی۔

اس بس میں سفر کرنا اچھا لگا البتہ اس بس کا جتنا حجم ہے اس حساب سے اندر بیٹھنے کی جگہ کم لگی ۔اندازہ ہوا کہ 30 نشستوں پر تو مسافر بیٹھ جائیں گے مگر مزید مسافروں کو کھڑا رہنا ہوگا اور کیا بس کنڈکٹر اس بات کا خیال رکھیں گے کہ بس میں کتنے مسافر کھڑے کیے جا سکیں گے یا پھر اس بس کو بھی باقی بسوں کی طرح مسافروں سے بھر کر چلایا جائے گا؟

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان