کراچی میں پولیس نے بدھ کو انسداد منشیات کی ایک عدالت میں بتایا کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان قریشی آٹھ سال سے ویڈ منگوا کر نشہ کر رہے تھے جبکہ وہ ایک اور کیس میں جیل میں رہ چکے ہیں۔
آج انسداد منشیات کی عدالت میں ارمغان کے خلاف منشیات کے دو مقدموں کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران پولیس کی تفتیشی ٹیم نے دو میں سے ایک کیس کا چھ سال بعد چالان اور مقدمات کی تفصیل پیش کیں، جن کے مطابق ارمغان آٹھ سال سے ویڈ منگوا کر نشہ کر رہے تھے۔
چالان کے مطابق 30 اپریل، 2019 کو ڈاک سے ارمغان کے نام پر ایک پارسل پاکستان پوسٹ آیا تھا، جس کو مشکوک سمجھ کر کھولا گیا تو 125 گرام ویڈ برآمد ہوئی، پارسل ارمغان کے ڈی ایچ اے فیز 6 کے پتے پر منگوایا گیا تھا۔
چالان کے مطابق ملزم اسی طرح کے ایک کیس میں پہلے سے گرفتار ہونے کے بعد جیل جا چکے ہیں۔
چلان میں مزید کہا گیا کہ ارمغان نے یکم جولائی، 2017 سے 24 اپریل، 2019 کے درمیان نو پارسل منگوائے تھے۔ ملزم نے یہ پارسل اپنے اور والد کے نام پر منگوائے۔ اس کیس کے دیگر شریک ملزمان میں عبد الغفار اور احتشام احمد شامل ہیں۔
عدالت نے ملزم کو 18 مارچ کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈیفنس کے رہائشیوں کا خط
دوسری جانب ڈیفنس کے رہائشیوں نے مصطفیٰ عامر کے قتل کے بعد ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور سٹیشن کمانڈر ڈی ایچ اے کراچی سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو خط لکھ کر ڈی ایچ اے رولز کی مبینہ خلاف ورزی پر ارمغان کے والد کامران قریشی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ’حالیہ واقعات کی وجہ سے رہائشیوں کو سکیورٹی خدشات لاحق ہو گئے ہیں، ارمغان کے زیر استعمال بنگلے کے اصل مالک کو سامنے لاکر کامران سے بنگلے کو خالی کرایا جائے۔‘
خط کے مطابق بنگلے سے متعدد مرتبہ ہوائی فائرنگ کے واقعات پیش آئے، جس کی وجہ سے علاقے میں خوف کی فضا پیدا ہوئی جبکہ 2023 سے 2024 کے دوران بنگلے میں غیر قانونی طور پر شیروں کو بھی رکھا گیا۔
خط میں مزید لکھا گیا کہ ارمغان قریشی 100 نجی سکیورٹی گارڈ رکھتے تھے، اور وہ اپنے گارڈز کے ذریعے خواتین، گھریلو ملازمین کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے میں بھی ملوث ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آٹھ فروری کو بنگلے میں ارمغان اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کی وجہ سے دیگر رہائشی گھروں میں محصور ہوگئے تھے۔‘
ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا نے 21 فروری کو خط ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، پولیس دیگر اداروں کی مدد سے ارمغان کے زیر استعمال بنگلے کو خالی کروائے گی جبکہ ڈی ایچ اے رولز کی خلاف ورزی پر متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد ایکشن لیں گے۔
’عدالت تفتیشی افسر پر برہم‘
آج جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی سماعت کے دوران ارمغان اور شیراز کو پیش کیا گیا۔
تاہم مقدمے کے گواہان کے بیان ریکارڈ نہ کرنے پر عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ گواہوں کے بیانات قلم بند کرانے سے پہلے ملزمان کے وکلا کو نوٹس دیا تھا؟
عدالت نے ملزمان کے وکلا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کیس کے گواہوں کو دوبارہ پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ مقتول مصطفیٰ عامر کراچی کے علاقے ڈیفنس سے چھ جنوری کو لاپتہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں پولیس کو حب سے ان کی جلی ہوئی لاش ملی۔