کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے گذشتہ ماہ چھ جنوری کو لاپتہ ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کی عدالتی حکم پر ہفتے کی صبح قبر کُشائی کر کے ڈی این اے کے نمونے لے لیے گئے، تاہم میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کے مطابق ایسے کیسز میں موت کی وجہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
23 سالہ مصطفیٰ عامر کی سوختہ لاش 12 جنوری کو بلوچستان کے علاقے حب میں دریجی تھانے کی حدود سے ایک جلی ہوئی کار سے ملی تھی۔ انہیں مبینہ طور پر اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
لاش کی شناخت نہ ہونے کے باعث دریجی تھانے کی پولیس نے اسے لاوارث قرار دے کر ایدھی کے حوالے کر دیا تھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق 16 جنوری کو لاش کو مواچھ گوٹھ میں واقع ایدھی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے لاوارث لاشوں کی تدفین سے قبل قبر پر ایک نمبر الاٹ کیا جاتا ہے۔ شناخت سے قبل لاوارث لاش کے طور پر دفنائی گئی مصطفیٰ عامر کی قبر کو ایدھی کی جانب سے 970490 نمبر دیا گیا تھا۔
مصطفیٰ عامر کی والدہ وجہیہ عامر نے عدالت کو قبر کشائی کی درخواست دی تھی، جس پر آج عملدرآمد ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایدھی رضاکار بلال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مواچھ گوٹھ میں واقع ایدھی قبرستان میں قبر کشائی کے موقعے پر میڈیکل ٹیم اور پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔
انہوں نے بتایا: ’قبر کُشائی کے بعد لاش سے ڈی این اے ٹیسٹ لے لیے گئے اور اسے سہراب گوٹھ میں واقع ایدھی سردخانے منتقل کر دیا گیا ہے۔‘
عدالتی حکم پر قبر کشائی کے لیے بنائے گئے تین رکنی میڈیکل بورڈ میں سرجن کراچی ڈاکٹر سمیہ سید، ڈاکٹر سری چند اور میڈیکو لیگل آفیسر (ایم ایل او) ڈاکٹر کامران خان شامل تھے۔
قبرکشائی جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی موجودگی میں کی گئی۔ اس موقعے پر اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حکام اور پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔
مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی کے موقع پر ڈاکٹر سمیہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ لاش سے ڈی این اے سمیت 11 سیمپلز لیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لاش بہت زیادہ جلی ہوئی ہونے کے باعث موت کی وجہ کا تعین ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ایسے کیسز میں موت کی وجہ معلوم کرنا بہت زیادہ مشکل ہوتا۔ لاش سے مختلف نمونے لے لیے گئے ہیں اور ڈی این اے کی رپورٹ تین سے سات دنوں میں آئے گی۔‘
مصطفیٰ عامر کیس کا پس منظر
کراچی پولیس کے مطابق ڈی ایچ اے کے رہائشی مصطفیٰ عامر چھ جنوری 2025 کی شام کو ساڑھے سات بجے اپنی والدہ کو یہ کہہ کر گئے کہ وہ ایک دوست سے ملنے جارہے ہیں۔
سات جنوری کو درخشاں تھانے میں مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا۔ وجیہہ عامر کے مطابق چھ جنوری کو ان کا بیٹا شام ساڑھے سات بجے اپنی کار میں گھر سے نکلا اور ایک گھنٹے بعد ان کی انٹرنیٹ ڈیوائس بند ہو گئی۔ انہوں نے اپنے طور پر بیٹے کی تلاش اور معلومات حاصل کی لیکن ان کا پتہ نہیں چل سکا۔
چھ جنوری سے لاپتہ مصطفیٰ عامر کا 24 جنوری تک پتہ نہیں لگ سکا تھا۔
14 جنوری کو کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو ایک امریکی نمبر والی سم سے تاوان کے لیے کال موصول ہونے کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں تبدیل کرکے سی آئی اے کو دے دیا گیا تھا۔
مقدس حیدر کے مطابق: ’اس کیس میں سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) نے بھرپور مدد کی۔ 25 جنوری کو تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد سی آئی اے اور سی پی ایل سی نے مشترکہ تحقیقات شروع کیں۔
’آٹھ فروری کو پولیس اور سی پی ایل سی نے مشترکہ طور پر ڈی ایچ اے کے ایک گھر پر چھاپہ مارا، جس کے دوران ملزم ارمغان نے پولیس پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس (ڈی ایس پی) احسن ذوالفقار اور سپاہی زخمی ہوئے، تاہم پولیس نے ملزم ارمغان کو گرفتار کرلیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم کی تحویل سے انتہائی مہنگے ہتھیار ملے۔ اس کے علاوہ لاپتہ مصطفیٰ عامر کا فوبائل فون بھی ملزم کے پاس سے ملا اور گھر کے قالین پر خون کے نشانات ملے، جو دونوں انتہائی اہم ثبوت تھے۔‘
بقول مقدس حیدر: ’ایک خاتون کے خون کے دھبے بھی ملے اور پولیس کو اس خاتون کی تلاش ہے۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ مقتول اور ملزم دوست ہیں اور ان کے درمیان ایک خاتون کے معاملے پر تنازع تھا، جس پر ممکنہ طور پر قتل ہوا۔‘
آٹھ فروری کو کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کی گرفتاری کے باجود پولیس کو 13 فروری تک مصطفیٰ عامر کی لاش کے متعلق پتہ کیوں نہیں چلا؟
مقدس حیدر کے مطابق کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کی گرفتاری کے بعد تحقیقات کے لیے عدالت سے ایک دن کا عدالتی ریمانڈ ملا مگر مزید رمانڈ نہ ملنے کے باعث تفتیش نہ ہوسکی، جس کے بعد سی پی ایل سی اور ایک وفاقی حساس ادارے کی مدد سے مزید تفتیش کی گئی۔
مقدمہ آگے بڑھا تو مرکزی ملزم ارمغان اور مقتول کے مشترکہ دوست شیراز عرف شاویز بخاری کو 13 فروری کو گرفتار کیا گیا، جس سے پولیس کو اس کیس کے متعلق تمام پہلو اور کرائم سین سے لاش کو ٹھکانے لگانے کی معلومات ملیں۔
مزید برآں، ملزم شیراز نے انکشاف کیا کہ ارمغان نے مصطفیٰ کو بہانے سے اپنے گھر بلایا، جہاں تین گھنٹے تک لوہے کی راڈ سے تشدد کیا گیا۔ بعد ازاں، مصطفیٰ کی لاش کو ان کی گاڑی میں ڈال کر حب کے قریب لے جایا گیا اور آگ لگا دی گئی۔
بعد میں شیراز نے پولیس کو جو کچھ بتایا، وہی ارمغان کے حراست میں لیے گئے ان کے دو ملازمین نے بھی بتایا، جس کے بعد پولیس کو لاش کا پتہ لگا۔
کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کی گرفتاری کے بعد ان کے والد کامران قریشی نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کے بیٹا بے قصور ہے اور اسے اس کیس میں پھنسایا جارہا ہے۔
مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر نے ویڈیو بیان میں پولیس پر اپنے بیٹے پر غلط الزام لگانے اور کیس میں غفلت برتنے کے الزامات لگائے۔
ایک اور وائرل ویڈیو بیان میں وجیہہ عامر نے سوال اٹھایا کہ بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی ڈیفنس سے حب تک کیسے پہنچی اور کسی نے گاڑی جلنے کی آواز کیوں نہیں سنی۔ انہوں نے کیس کی پیروی کرنے والے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے ان کی معطلی کا مطالبہ بھی کیا۔
پولیس حکام نے مصطفیٰ عامر اغوا کیس میں غفلت برتنے پر درخشاں تھانے کے ایس ایچ او سب انسپکٹر عبدالرشید پٹھان، سب انسپکٹر ذوالفقار احمد اور انویسٹی گیشن آفیسر افتخار احمد کی بالترتیب اے ایس آئی اور ہیڈ کانسٹیبل کے عہدوں پر تنزلی کردی تھی۔
اس کیس کو حل کرنے میں پولیس کی تاخیر کی وجوہات پر انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مصطفیٰ عامر نے مقامی سم استعمال نہیں کی، اس لیے تکنیکی طور پر وہ پولیس کے لیے ’لاپتہ‘ رہے۔پاکستانی سم کے بجائے غیر ملکی سم کا استعمال کیا، اس لیے گمشدگی کے باوجود پولیس انہیں ٹریس نہیں کرسکی۔
غلام نبی میمن کے مطابق: ’واقعے کے بعد دونوں ملزمان پہلے لاہور اور بعد میں سکردو چلے گئے۔ مرکزی ملزم گرفتاری سے تین، چار روز قبل اور شیراز عرف شاویز بخاری گرفتاری سے دو روز قبل کراچی واپس آئے، جس کے بعد ان کی گرفتاری ممکن ہوسکی۔‘
غلام نبی میمن کے مطابق گرفتار ملزم کا عدالت کی جانب سے ریمانڈ نہ ملنے کے باعث ان سے تفتیش نہیں ہوسکی اور بعد میں ریمانڈ کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔
نوجوان مصطفیٰ عامر کی کئی روز تک گمشدگی، پولیس کی جانب سے لاپتہ نوجوان کا سراغ نہ لگانے، مسخ شدہ لاش ملنے اور قتل کی وجوہات سامنے آ طور پر سوشل میڈیا صارفین نے اس خبر میں انتہائی دلچسپی لی۔