دور افتادہ پہاڑی گاؤں لونگوا میں سب سے نمایاں عمارت ٹین کی چھت والی ایک جھونپڑی ہے جو انگھ (روایتی سردار) کی ملکیت ہے اور کونیاک قبیلے کی روایتی برتری کی علامت بھی۔
لیکن ایک نہ نظر آنے والی حد بندی، یعنی انڈیا اور میانمار کے درمیان سرحد جو اس گاؤں کے بیچ سے گزرتی ہے، اب مقامی رہائشیوں کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔
نسلوں سے یہ سرحد کونیاک قبیلے کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی کیونکہ ان کی زندگی دونوں ممالک میں بلا رکاوٹ گزرتی رہی ہے۔
قبیلے کے سرادر ٹونئی فوآنگ، جن کا گھر بالکل سرحدی لکیر پر واقع ہے، کہتے ہیں کہ ’میں میانمار میں کھاتا ہوں اور انڈیا میں سوتا ہوں۔‘
تاہم آزاد نقل و حرکت کی یہ طویل روایت اب خطرے میں ہے۔
انڈین حکومت پہلی بار سرحد پار آمد و رفت کو محدود کرنے کے اقدامات کر رہی ہے اور اس نظام کو ختم کر رہی ہے جو مقامی قبائل کو بلا رکاوٹ سرحد عبور کرنے کی اجازت دیتا تھا۔
سرحدی باڑ کی مجوزہ تعمیر نے لونگوا جیسے دیہات کو تقسیم کرنے اور کونیاک برادری کی زندگیوں اور روایات کو متاثر کرنے کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
دو ممالک، ایک برادری
دسمبر کی ایک جمعرات کو لونگوا کا بازار میانمار کی جانب سے آنے والے خریداروں سے بھرا ہوا تھا۔
موٹرسائیکلوں پر جتنی ممکن ہو اشیا لادی جا رہی تھیں، جن میں کپڑے، چائے اور صابن شامل تھے۔ سرحد کے دوسری طرف قریبی بازار لاہے قصبے میں ہے جو ایک دن کے سفر کی مسافت پر ہے۔
مقامی لوگ عرصے سے خریداری، تعلیم حاصل کرنے یا طبی سہولیات کے لیے لونگوا آتے جاتے رہے ہیں جہاں سرحد عبور کرنے کی واحد علامت ایک پہاڑی پر نصب سرحدی ستون ہے۔
انگھ اور گاؤں کی کونسل کے ارکان کا کہنا ہے کہ جب یہ ستون 1970 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تو ان کے آبا و اجداد کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ انہیں تقسیم کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔
فوآنگ نے کہا: ’اس وقت ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ انڈیا ہے یا میانمار۔ یہ زمین آزاد تھی۔ یہاں کوئی انگریزی یا ہندی سمجھنے والا نہیں تھا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔‘
دوسرے درجنوں مقامی ناگا قبائل کی طرح کونیاک قبیلے کی زمین بھی ان پہاڑوں کے دونوں جانب پھیلی ہوئی ہے جو انڈیا اور میانمار کو تقسیم کرتے ہیں۔
ناگا دیہات عام طور پر سکیورٹی کے لیے پہاڑی چوٹیوں پر آباد کیے جاتے تھے لیکن جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس وقت کے برمی بادشاہ کے ساتھ سرحدی معاہدہ کیا تو اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
انڈیا کا آئین دوہری شہریت کی اجازت نہیں دیتا لیکن لونگوا کے لوگ خود کو دونوں ممالک کے شہری سمجھتے ہیں۔
فوآنگ کے بقول: ’میں انڈیا اور برما دونوں کا شہری ہوں۔ میں برمی انتخابات میں ووٹ ڈالتا ہوں۔ اور جب انڈیا کے انتخابات ہوتے ہیں تو وہاں بھی ووٹ دیتا ہوں۔‘
فوآنگ انڈیا میں کونیاک کے چھ دیہات اور میانمار میں 30 سے زیادہ دیہات کے سربراہ ہیں جن کے رہائشی نسلوں سے اپنی وفاداری سالانہ دعوت کے ذریعے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
گارڈز اور باڑ گاؤں کو تقسیم کر سکتے ہیں
اب تک یہاں کے لوگ سرحد کے دونوں طرف 9.9 میل کے اندر آزادانہ سفر کر سکتے تھے لیکن فروری 2024 میں انڈٰیا کی حکومت نے ’ملک کی داخلی سکیورٹی کو یقینی بنانے اور شمال مشرقی ریاستوں میں آبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے‘ کے لیے آزادنہ آمدورفت کو ختم کر دیا۔
لونگوا میں تبدیلی آہستہ آہستہ آئی جہاں گاؤں میں تعینات فوجیوں کو دستاویزات کی جانچ شروع کرنے میں تقریباً ایک سال لگا اور لونگوا کے رہائشی اب بھی دوپہر کے بعد جب فوجی اپنی شفٹ مکمل کر لیتے ہیں، آزادانہ طور پر آ جا سکتے ہیں۔
لیکن کونیاک خواتین کی ایک تنظیم کی نمائندگی کرنے والی سابق مقامی رہنما بی فوہی کونیاک نے کہا کہ میانمار کے دیگر دیہات کے لوگ لونگوا سے آگے جانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہیں تعلیمی اداروں یا طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے اعلان کیا کہ حکومت انڈیا میانمار سرحد پر 1,021 میل طویل باڑ تعمیر کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
اگر اسے سرحدی لکیر پر بنایا گیا تو یہ درجنوں گھروں کے بیچ سے گزرے گی۔
گاؤں کی 990 عمارتوں میں سے 170 سرحد پر واقع ہیں جن میں ایک سرکاری سکول، ایک چرچ اور ایک فوجی کیمپ بھی شامل ہیں۔
باڑ کوئی حل نہیں
23 سالہ وانگرون کونیاک پانچ گھنٹے موٹرسائیکل چلا کر مومکھو نامی سے اپنی بہن کو لینے آیا ہے کیونکہ سکول کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’اگر ہمیں یہاں آنے کی اجازت نہ ملی تو ہمیں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ جو بچے میانمار کے سکول میں پڑھتے ہیں، ان کے لیے مسئلہ نہیں ہوگا لیکن میری بہن جیسے لوگ جو انڈیا میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔‘
رہائشی اور ریاستی حکام ان تبدیلیوں کو مسترد کر رہے ہیں۔ ناگالینڈ حکومت نے زادانہ نقل و حمل کے خاتمے اور سرحدی باڑ کے منصوبے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی۔
تین فروری کو لونگوا کے رہائشیوں نے احتجاج کیا جن کے ہاتھوں ’مقامی باشندوں کے حقوق کا احترام کرو، نوآبادیاتی ورثے کو نہیں‘ نعرے والے بینرز تھام رکھے تھے۔
مقامی تجزیہ کار یومے نے کہا کہ مقامی لوگوں کو سرحد عبور کرنے سے روکنے کی کوشش اقوام متحدہ کے انڈیجینس پیپلز رائٹس کے اعلامیے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے جو ایسی برادریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے جو سرحدوں کے دونوں طرف بسی ہوئی ہیں۔
دیہات کی کونسل کے رکن 45 سالہ یانلانگ نے کہا: ’ہمارے لیے کوئی برما لونگوا یا انڈیا لونگوا نہیں ہے۔ ایک ہی گاؤں اور ایک ہی خاندان کو کیسے تقسیم کیا جا سکتا ہے؟‘
© The Independent